۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
ایم ڈبلیو ایم پاکستان

حوزہ/لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس میں شیعہ علماء کا کہنا تھا کہ 1973 کا آئین تمام مکاتب فکر کی مشاورت اور باہمی رضامندی سے منظور کیا گیا، نصف صدی گزرنے کے بعد آج اس آئین کی اسلامی حیثیت کو چیلنج کرنے کی کوشش ان قوتوں کی جانب سے کی جا رہی ہے جنہوں نے اس ملک میں مسلکی نفاق کی بنیاد ڈالی، ملک کے امن و امان کو تباہ کرنیوالے دہشتگردوں سے بھی زیادہ خطرناک وہ عناصر ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مجلس وحدت مسلمین کے رہنماوں اور دیگر شیعہ علماء نے لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس میں کہا کہ پنجاب اسمبلی سے پاس ہونیوالا متنازع ایکٹ مسترد کرتے ہیں، یہ ایکٹ مقدسات کی حفاظت کیلئے نہیں بلکہ ملک میں فرقہ واریت کو فروغ دینے کی سازش ہے، جسے یک طرفہ طور پر منظور کر لیا گیا ہے۔ پریس کانفرنس میں مرکزی رہنما مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ مبارک علی موسوی، ڈپٹی سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ اقبال کامرانی، ڈپٹی سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ حسن علی ہمدانی، ممتاز عالم دین علامہ حسین نجفی، علامہ امتیاز عباس کاظمی، علامہ امجد علی جعفری سمیت دیگر علمائے کرام موجود تھے۔ علامہ مبارک موسوی کا کہنا تھا کہ پاکستان 22 کروڑ انسانوں کا ملک ہے، مسلمانوں کی تعداد باقی مذاہب سے زیادہ ہے، 1973 کا آئین تمام مذاہب کی متفقہ رائے اور ہم آہنگی سے موجود ہے، ہم اس آئین پر پورا یقین رکھتے ہیں، اس کی تمام مندرجات کو نافذ العمل جانتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسلام کے نام پر ملکی سالمیت و استحکام کیخلاف گھناﺅنی سازش کی جا رہی ہے، تحفظ بنیاد اسلام بل کی آڑ میں اہلبیت اطہار علیہم السلام کی قدر و منزلت کو نشانہ بنانے کے گھناﺅنے اقدام کی شدید مذمت کرتے ہیں، جو سیاسی قائدین اس بل کی حمایت کر رہے ہیں ملت تشیع آئندہ الیکشن میں ان کی سیاسی حمایت سے مکمل طور پر قطع تعلقی کا اعلان کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چودھری پرویز الہی ایک منجھے ہوئے ایک سینئر سیاستدان ہیں ان کا تکفیریوں کے جال میں پھنسنا حیران کُن ہے، سپیکر پنجاب اسمبلی کی یہ جانبداری ان کی سیاسی ساکھ کیلئے شدید دھچکا ثابت ہو گی۔ علامہ مبارک موسوی نے کہا کہ ہم گورنر پنجاب سے مطالبہ ہے کہ بل کے مندرجات پر ملت تشیع کے تحفظات سنے بغیر کوئی فیصلہ نہ کیا جائے، کالعدم مذہبی جماعتوں کے فکری پیروکاروں نے غلط بیانی کرکے پنجاب اسمبلی کے ممبران سے اس بل کی منظوری لی۔

علامہ مبارک علی موسوی  نے کہا کہ وحدت و اخوت کا فروغ اور باہمی احترام ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے تاہم ہمارے بنیادی عقائد ہمیں ہر شے پر مقدم ہیں، کسی کو اس بات کی قطعاََ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ کسی بل یا قانون کی آڑ میں ملت تشیع کو نشانہ بنانے کی کوشش کرے۔ انہوں نے کہا کہ خاندانِِ رسالت کا جو مقام خاتم النبین حضرت محمد (ص) نے اپنی اُمت کو بتایا ہے اس میں ردوبدل احکامات رسول(ص) کی صریحاََ نفی ہے، یہ متنازع بل اسلام کی بنیادی تعلیمات پر وار ہے، جسے شیعہ سنی مل کر روکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ملت تشیع اور اہلسنت اپنی مذہبی تعلیمات کے مطابق اہلبیت ؑ کے ناموں کیساتھ چودہ سو سالوں سے ”علیہ السلام“ لکھتے آئے ہیں، پورے عالم اسلام میں صدیوں سے یہی طریقہ رائج ہے، تکفیری گروہ نے اپنے شرپسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے صوبہ پنجاب کا انتخاب کیا ہے، ملک کے مدبر سیاسی و مذہبی رہنماﺅں کو اس سلسلے میں اپنا فوری کردار ادا کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ مذہبی آزادی اور عقیدے کا اظہار ہر شہری کا بنیادی و آئینی حق ہے، ملک کے مختلف مسالک کو ایک دوسرے کیخلاف صف آراء کرکے ملک میں ایک بار پھر مذہبی منافرت کی آگ بھڑکائی جا رہی ہے، ملک و قوم کی سلامتی کیلئے ان عناصر کو بے نقاب کرنا انتہائی ضروری ہے، جن کا بنیادی ایجنڈا تفرقہ بازی ہے، ایسے فکری دہشت گردوں کو لگام دینا ہو گی جن کا مقصد مقدسات کی عظمت اور ناموس کے نام پر انتہا پسندی کو فروغ دینا ہے، اسی شدت پسندی کا خمیازہ دہشتگردی کی شکل میں آج بھی پوری قوم بھگت رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک اب کسی نئی آزمائش کا متحمل نہیں ہو سکتا، ملک میں قیام امن کیلئے ہم نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس اسلامی نظریے کے قائل ہیں جس کی بنیاد پر یہ وطن حاصل کیا گیا، جو عناصر قائداعظم کی اسلامی ریاست کو مسلکی ریاست میں بدلنا چاہتے ہیں ان کے ناپاک عزائم کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔

علامہ مبارک موسوی کا کہنا تھا کہ 1973 کا آئین تمام مکاتب فکر کی مشاورت اور باہمی رضامندی سے منظور کیا گیا، نصف صدی گزرنے کے بعد آج اس آئین کی اسلامی حیثیت کو چیلنج کرنے کی کوشش ان قوتوں کی جانب سے کی جا رہی ہے جنہوں نے اس ملک میں مسلکی نفاق کی بنیاد ڈالی، ملک کے امن و امان کو تباہ کرنیوالے دہشتگردوں سے بھی زیادہ خطرناک وہ عناصر ہیں جو شدت پسندی کی راہ ہموار کرنے کیلئے میدان فراہم کرتے ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .