تحریر: مولانا سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری، مدیر شعور ولایت فاونڈیشن
مطلع سخن
حوزه نیوز ایجنسی | نگاہ تصور اٹھاکر آج سے چودہ سو سال پہلے کے عربستان کو غور سے دیکھئے جہاں کفر و جہالت کی تاریکی پورے معاشرے کواپنی لپیٹ میں لئے ہوئی تھی ،اس وقت دنیائے فانی آدم کی اولاد سے معمور تھی مگر یہ بھی سچ ہے کہ انسان نما حیوان اس کرۂ ارض پر بری طرح رینگ رہے تھے اور عریض و بسیط زمین پر چپکے ہوئے بد نما داغ بنے ہوئے تھے،چوری ،رہزنی ،قمار بازی ،قتل و غارت گری اور گمراہی و ضلالت جیسے بدترین افعال ان کا شیوہ تھے اور بت پرستی ان کا مذہب بنا ہوا تھا۔یہ حقیقت ہے کہ اس وقت دنیا دین حق اور رہبرکامل سے بالکل خالی تھی۔ایسے میں رحمت کل کے دریائے لازوال کو جوش آیا اور اس نے اپنی بھرپور رحمت و عطوفت کے سایہ میں ان چوروں ،راہ زنوں،سرکشوں،بت پرستوں اور بے دینوں کی ہدایت و رہبری کے لئے ایک مکمل اور جامع ترین دین کا نفاذ کیا۔یہ دین وہی ہے جو اس کی نگاہ میں پسندیدہ اور محبوب ہے (ان الدین عنداللہ الاسلام )۔
اس دین کی تبلیغ واشاعت کے لئے خداوندعالم نے اپنے مقرب بندوں کو انبیاء اور اوصیاء کی صورت میں ارسال فرمایاتاکہ اس آفاقی دین کے معارف و حقائق کو دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلائیں؛آدم نے اس کی توسیع میں سرجوڑمحنت کی اور جنت کا لباس فاخرہ اتار کر میدان بشر میں کود پڑے ،اسی طرح نوح ، موسیٰ،عیسیٰ علیہم السلام ....غرض تمام انبیائے کرام نے اپنی بھر پور محنت کا مظاہرہ فرمایا۔
سب نے لمحہ بہ لمحہ ،قدم بہ قدم اورعہد بہ عہد اس دین کو منزل مقصود تک پہنچانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے اگر کامیاب رہتے تو تکمیل دین کی سندرسول اکرم ؐ کے دامن حیات میں نہ آتی ،چنانچہ رسول مقبولؐ کا دور آیا لیکن اس وقت حالات کتنے ناگفتہ بہ تھے ،ماحول میں کتنی پراگندگی تھی اسے قید تحریر میں نہیں لایاجاسکتا۔
جہالت و گمراہی کی اس تنگ و تاریک دنیا میں علم و عمل اور ہدایت و رہبری کا ضیا بار چراغ جلانا اور اس کی روشنی سرکشوں کے ہر گھرمیں پہنچاکر راہ مستقیم دکھانا ایک عام انسان کے بس کی بات نہیں تھی کہ ابتر کے تیز نشتر سہنے کے بعد ،کنکروں اور پتھروں سے بری طرح زخمی ہونے کے بعد اور جسم اطہر پر کوڑوں کی صعوبتیں سہنے کے بعد بھی ہدایت کے کاموں میں سرگرم عمل رہنا بڑا مشکل کام تھا لیکن یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی نازش آفریں شخصیت کا سحر انگیز زور و دبدبہ تھا جس نے اسلام کی سخت ترین مخالفت کرنے والے عرب بدوؤں کو اسلام کا موافق بنایا ۔
سوال یہ ہے کہ عرب ماحول میں اتنے بڑے انقلاب کا محور کیا تھا ،وہ کون ساعمل تھا جس نے عرب بدوؤں کی گمراہ آلود زندگی میں تبدیلی پیدا کر دی... وہ کون سا پیغام رسول صلی اللہ علیہ و آلہ تھا جس کے صاف و شفاف آئینہ میں اپنے آبائی اور جاہلی رسومات پر مر مٹنے والے انسانوں کو اپنا تابناک مستقبل نظر آیا اور انہوں نے اپنی زندگی یکسر بدل ڈالی...؟!
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی پوری زندگی کا بغور جائزہ لینے سے یہ بات نصف النہار کی طرح واضح و آشکارہو جاتی ہے کہ آپ نے اسلامی آئین و معارف کی تبلیغ واشاعت میں جس چیز کو محور و مرکز قرار دیا وہ ہے "اخلاق "۔
"دین اسلام اخلاق وکردار سے پھیلا ہے"یہ صرف ایک جملہ نہیں ہے بلکہ اس مختصر سی عبارت میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی ترسٹھ سالہ زندگی سمٹی ہوئی ہے،آپ نے ان اخلاقی نقوش کو معیار تبلیغ قرار دیا جو عرب ماحول میں قطعی مفقود تھے اور اسی اخلاق کے آئینہ میں اسلام کے دوسرے معارف و حقائق کا عکس دکھاکرعرب بدوؤں کوانسانیت ساز اصولوں کاذخیرہ عطا فرمایا۔
آئیے آپ کی ترسٹھ سالہ زندگی کے ان اخلاقی نقوش کا تجزیہ کریں جو کل کے جاہل معاشرے کیلئے اہم درس اور آج کے ترقی یافتہ دور کی اہم ترین ضرورت ہیں۔
اخلاق ؛اہم ترین درس زندگی
ہر معاشرہ کی زندگی اور ہر قوم کے تکامل میں اخلاق اولین درس اور بنیادی شرط ہے ،انسان کی پیدائش کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کی بھی تخلیق ہوئی ہے ،دنیا کا کوئی عقلمند ایسانہیں جس کو انسانی روح کی آسائش و سلامتی کے لیے ا خلاقیات کے ضروری ہونے میں ذرہ برابر بھی شک ہو۔ بھلا کون ہے جسے صداقت و امانت سے تکلیف ہوتی ہو یا کذب و خیانت کے زیر سایہ سعادت کا متلاشی ہو... ؟
اخلاق کی اہمیت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ایک عام انسان بھی قوم و ملت کی ترقی کے لئے اخلاق و کردارکو انتہائی اہم اورضروری سمجھتا ہے ۔ایک اچھی اور خوشگوار زندگی کے لئے اخلاق کی کتنی ضرورت ہے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صادق آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں:من حسنت خلیقتہ طابت عشرتہ"جس نے اپنے اخلاق کو اچھا بنا لیا اس کی زندگی پاکیزہ اور خوشگوار ہو جاتی ہے"۔(١)
اصل میں ایک خوشگوار زندگی کا راز اسی خوش اخلاقی اور مکارم اخلاق میں پوشیدہ ہے ،حضرت علی علیہ السلام نے زندگی کے میدان میں کامیابی کے لئے اخلاق کو اہم ترین درس قرار دیتے ہوئے فرمایا:"اگر ہم جنت کے امیدوار اور دوزخ سے خوف زدہ بھی نہ ہوتے اور ثواب و عقاب بھی نہ ہوتا پھر بھی ہمارے لئے ضروری تھا کہ ہم مکارم اخلاق کے حصول میں کوشاں رہیں اس لئے کہ کامیابی و کامرانی کاراستہ مکارم اخلاق میں پنہاں ہے"۔(٢)
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں:"خوش اخلاقی انسان کو شب زندہ دار روزہ دار کے ہم مرتبہ بنا دیتی ہے ،آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا :وہ بہترین شیٔ جو بندوں کو عطا کی گئی ہے ،کیا ہے ؟فرمایا:خوش اخلاقی"۔(٣ )
ایک عام شخص بھی اس بات کا قائل ہے کہ کائنات کی اس دوڑتی بھاگتی زندگی میں اپنا وقار برقرار رکھنے کیلئے خوش اخلاقی کامظاہرہ کرنا ضروری ہے ،ایک انگریزدانشور"ساموئیل اسمایلز"کہتاہے:"اس کائنات کی محرک قوتوں میں سے ایک قوت کا نام "اخلاق"ہے اور اس کے بہترین کارناموں میں انسانی طبیعت کو بلند ترین شکل میں مجسم کرنا ہے کیونکہ واقعی انسانیت کامعرف یہی اخلاق ہے، جو لو گ زندگی کے ہر شعبہ میں تفوق وامتیاز رکھتے ہیں ان کی پوری کوشش یہی رہتی ہے کہ نوع بشر کااحترام و اکرام اپنے لئے حاصل کریں"۔( ٤ )
اس سلسلے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں:"تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کا اخلاق و کردار اچھا ہو یہ وہ لوگ ہیں جو ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں اور دوسروں سے محبت سے پیش آتے ہیںاور دوسرے بھی ان سے محبت سے پیش آتے ہیں،اور وہ اپنے دروازے سب کے لئے کھلے رکھتے ہیں"۔(٥ )
چونکہ انسان ایک اجتماعی مخلوق ہے اور اجتماعی زندگی کی اہم ترین ضرورت"حسن اخلاق"ہے لہذا انسان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اجتماعی زندگی سے بھرپور استفادہ کرنے اور معاشرے میں اپناوقار بنانے کے لئے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرے ۔
ترویج معارف میں رسولؐ کا اخلاقی سفر
کسی کے ساتھ زندگی گزارے کے لئے بہت سی چیزوں کا پہلے سیکھنا ضروری ہے تاکہ اس کے مطابق عمل کرے۔ اور ان چیزوں سے اجتناب کرنا ضروری ہے جو معاشرے کے صحیح رسم و رواج کے مخالف ہوں کیوں کہ ان چیزوں پرجب تک عمل نہ کیا جائے صحیح معاشرے کی تشکیل نہیں ہوسکتی اور نہ عمومی اخلاق کی تکمیل ہو سکتی ہے،معاشرے میں کامیابی کی پہلی شرط "حسن اخلاق"ہے۔انسان میں حسن خلق کی صفت بہت ہی عمدہ اور لوگوں کواپنی طرف جذب کرنے والی ہے ،انسان کی شخصیت کو بلند کرنے میں اس صفت کاکافی دخل ہے یہ انسان کے تمام حیاتی طاقتوں کوابھار دیتی ہے، حسن خلق کے علاوہ کسی بھی صفت کے اندر یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ دوسروں کے جذبات کو ابھار کر زندگی کی تکلیفوںمیں کمی کر سکے ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں: حسن الخلق یثبت المودة "خوش اخلاقی دوستی و محبت استوار کرتی ہے"۔ (٦)
آپ نے بھی معاشرتی زندگی کے اس اہم رکن کو پیش نظر رکھتے ہوئے ترویج معارف کا آغاز فرمایا چنانچہ آپ کے اخلاقی نقوش ہی تھے جس کی وجہ سے لوگ آپ کے گرویدہ ہوئے اور کسب معارف و حقائق میں اپنی پیش قدمی کا مظاہرہ کیا۔خدا وندعالم نے بھی اسلام کی ترویج و اشاعت میں رسولؐ کے اخلاق و کردار کواہم رکن قرار دیتے ہوئے فرمایا:" اے پیغمبر !یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم دل ہو ورنہ اگر تم بد مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے "۔(٧)
یہاں ترویج معارف میں آپ کے اخلاقی سفر کو تین حصوں میں تقسیم کیاجارہاہے :
الف :اعلان رسالت سے پہلے
اعلان رسالت سے پہلے آپ کی زندگی انتہائی سخت ،گھٹن آلود اور مصائب و آلام سے بھرپور تھی ،طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلا رسول اکرم ؐ صلی اللہ علیہ و آلہ کی سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ آپ کے مخاطب افراد بے پناہ گمراہیوں اور جاہلی رسومات میں گرفتارتھے ،حضرت علیؑ نے اس وقت کے حالات کی منظر کشی کرتے ہوئے فرمایا:"اللہ نے اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ کو اس وقت بھیجا جب رسولوں کا سلسلہ رکا ہوا تھا اور ساری امتیں مدت سے پڑی سو رہی تھیں ،فتنے سر اٹھارہے تھے ، سب چیزوں کا شیرازہ بکھرا ہوا تھا ،جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے ،دنیا بے رونق و بے نور تھی اور پھلوں سے ناامیدی تھی ،پانی زمین میں تہہ نشین ہو چکا تھا ،ہدایت کے مینار مٹ گئے تھے اور ہلاکت وگمراہی کے پر چم کھلے ہوئے تھے"۔(٨)
ایسے پر آشوب اور سخت ترین ماحول میں اگر رسول اکرمؐ سرے سے ان کے آبائی رسم و رواج کی تکذیب کرکے اپنا ابدی اور جاودانی مذہب پیش کرتے تو اس ضدی ماحول میں ایسا کوئی نہیں تھا جو آپ کی حمایت میں آگے بڑھتا۔اسی لئے عقل اول اور دلوں کے نباض ہمارے نبی ؐ نے تبلیغ کے واقعی اصول کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے پہلے اپنے پاکیزہ کردار کا صاف و شفاف آئینہ دکھایا ،ان کے دردوں کا درمان کرنے کیلئے پہلے ان کے دلوں میں اپنا مقام و مرتبہ بنایا اور جہاں کی فضا میں جاہلی رسومات کی بدبو رچی بسی تھی وہاں اخلاقی قدروں کی خوشبو پھیلائی ۔چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے اخلاق سے پھوٹنے والی وہ انسانیت ساز خوشبو سب نے محسوس کی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ لوگ آپ کو صادق وامین کا لقب نہ دیتے ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے دین کی مخالفت کرنے والے افراد کا صادق و امین کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کا اخلاق و کردار ہراعتبار سے قابل اعتماد ہے ۔
صداقت و امانت کتاب اخلاق کاسب سے اہم درس ہے جس پر تمام اجتماعی اور معاشرتی زندگی کادارومدارہے ،جس طرح صداقت کے وسیع دامن میں تمام اخلاقی صفات و کمالات موجود ہیں اسی طرح اس کے برعکس کذب وافترااور جھوٹ میں وہ تمام رذائل اخلاقی پنہاںہیں جو انسان کے وقار کو ختم کر دیتی ہیں،انسان کی پستیوں کاپہلا اور آخری زینہ یہی جھوٹ ہے،حضرت امام حسن عسکریؑ فرماتے ہیں:تمام خبائث اوربرائیوں کو ایک مکان میں بند کردیا گیاہے اور اس کی کنجی جھوٹ کو قرار دیا گیا ہے ۔ (٩)
خیانت بھی تمام برائیوں کی جڑہے فرق صرف اتنا ہے کہ جھوٹ انسان کے فردی اخلاق کو خاک کاڈھیڑ بنادیتی ہے اور خیانت انسان کے اجتماعی اور معاشرتی اخلاق وکردار کی عما ر ت کو ملبے میں تبدیل کر دیتی ہے ، خائن شخص خیانت کے ذریعہ اپنی اقتصادی حالت تو بہتر بنا سکتاہے لیکن لوگوں کے دلوں میں اپنا مرتبہ بنانے سے قاصر رہتاہے ۔
رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے اچھی زندگی کی شناخت میں انہیں دونوں کو معیار قرار دیتے ہوئے فرمایا:"لوگوں کے نماز،روزہ ،حج ،احسانات اور شبانہ روزمناجات کی زیادتی پر نگاہ نہ کروبلکہ ان کی راست گوئی اور امانت داری پر توجہ کرو"۔(١٠)
اسی لئے آپ نے فردی اور اجتماعی اخلاق میں کلیدی حیثیت رکھنے والے انہیں دونوں ارکان کو اپنی زندگی کانصب العین بنایا ۔صداقت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کا عالم یہ تھا کہ عرب اپنی آنکھوں دیکھی باتوں کا انکار کرنے کی جرأت کر سکتے تھے لیکن رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی صادق زبان سے نکلی ہوئی بات قابل انکار نہیں تھی ۔صداقت زبان کی طرح آپ کی امانت داری بھی شہرۂ آفاق تھی ،ہزاروں مخالفت کے باوجود عرب آپ کو امین کے لقب سے یاد کرتے اور بے خوف و خطر اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھوا تے تھے ،آپ بھی اپنی زندگی کے حساس لمحوں میں جب آپ کی زندگی کو بہت سے خطرات لاحق تھے لوگوں کی امانت کے متعلق فکرمند رہے ۔
ہجرت کے وقت حضرت علی علیہ السلام سے کی گی وصیتوں میں آپ کی یہ وصیت ہر انسان کولمحۂ فکریہ دے رہی ہے: اے علیؑ !مکہ کے باشندوں کے درمیان یہ آواز بلند کرو کہ جس نے بھی رسول صلی اللہ علیہ و آلہکے پاس امانت رکھوائی ہے، آئے اور امانت لے جائے۔(١١)
آپ نے ان دونوں رکن حیات اور درس زندگی کے ذریعہ جہاں اپنے کردار کی پاکیزگی اور صداقت زبان کا اقرار کروایاوہیں ان دونوں کو ترویج معارف اور تبلیغ دین و شریعت کامقدمہ قرار دیتے ہوئے آنے والی ہر نسل بشر کویہ باور کرایاکہ کسی بھی شعبۂ حیات میں آگے بڑھنے کے لئے درس اخلاق کو فراموش نہ کرنا اس لئے کہ درس اخلاق ہی بشر ی ز ندگی کے تکامل و ترقی میں خشت اول کی حیثیت رکھتاہے۔
ب : اعلان رسالت کے بعد
رسول اکرمؐ نے جن اخلاق وکردار کی بنیاد اعلان رسالت سے پہلے رکھی تھی آپ نے انہیں اخلاقی فضائل کو اعلان رسالت کے بعد اعلیٰ پیمانے پر پیش فرمایا،خداوندعالم نے بھی رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی بعثت کاواقعی ہدف ، اخلاقی فضائل کی ترویج و تکمیل قرار دیتے ہوئے فرمایا:اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا جو انہیں میں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے اور ان کے نفوس کوپاکیزہ بنائے ۔(١٢)
خداوندعالم نے اس آیت میں صراحت کے ساتھ رسول اکرم ؐ کی بعثت کا مقصدبیان فرمایاہے کہ رسول کی بعثت کے جہاں بہت سے اہداف ومقاصد ہیں وہیں اہم ترین ہدف تزکیۂ نفس کے ذریعہ لوگوں کی زندگی کو اعلیٰ درس اخلاق سے مزین کرنا تھا ۔خود رسول اکرم ؐ نے اپنی بعثت کااصلی ہدف مکارم اخلاق کی تکمیل قرار دیاہے ، آپ فرماتے ہیں:(انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق)۔ (١٣)
اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ رسول اکرمؐ کے مقدس وجود میں تمام صفات و کمالات اور اخلاقی فضائل جمع تھے اس لئے کہ آپ گلدستۂ انسانیت کے حسین پھول اور جہان ہستی کے کامل ترین انسان تھے،شجاعت ، عدالت ،صداقت ،امانت ،عطوفت ،مہر ومحبت ،حسن اخلاق اور دوسرے تمام صفات آپ کے مقدس وجود میں بدرجۂ اتم موجود تھے۔ آپ نے ان تمام صفات کو ہدف بعثت قرار دیتے ہوئے ان صفات کو لوگوں میں رائج کرنے کی بھرپور کوشش کی ،اعلان بعثت ورسالت کے بعد آپ کے اخلاقی فضائل کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے :
١۔گھر میں
٢۔معاشرے اور سماج میں
٣۔میدان جنگ میں
اس مختصر سے مقالہ میں اتنی وسعت نہیں ہے کہ اجمالی طور پر بھی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے اخلاقی فضائل کوجمع کیا جا سکے ارباب فکر و نظر اس موضوع سے متعلق کتابوں کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔
ج :مدینہ میں رسول اکرم ؐ کے اخلاقی نقوش
رسول اکرم ؐ نے مدینہ میں اپنی زندگی کاآغاز کرنے سے پہلے جوبنیادی قدم اٹھایا وہ تھا "اخوت و اتحاد کی بنیاد"۔آپ نے سب سے پہلے مسلمانوں کے درمیان الفت و محبت اور بھائی چارگی کو فروغ دینے کے لئے انصار و مہاجرین میں سے ہر ایک کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام قبیلوں کے درمیان مدتوں پڑی رنجش اور خون خرابہ کا خود بخود خاتمہ ہوگیا اور اس کی جگہ بھائی چارگی اور پیارومحبت نے لے لی اور سب کے سب ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ ایک جان ہو کر رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے اشاروں پردین کے لئے اپنی جان نچھاور کرنے لگے ۔
اخوت وبرادری کے سلسلے میں آپ کے زریں اقوال بھی آنے والی تمام نسل بشر کے لئے درس عبرت کی حیثیت رکھتے ہیں ،آپ نے اخوت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: "اگر کوئی شخص کسی برادر مومن کو خداوندعالم کیلئے اپنا بھائی قرار دے تو خداوندعالم اس کیلئے جنت میں ایک ایسا درجہ قرار دے گا جس تک اس کا کوئی اور عمل نہیں پہنچ سکتا" ۔(١٤)
آپ نے صدر اسلام میں اتحاد و اخوت کابہترین رشتہ قائم کرکے ان تمام رنگ و نسل اور مال ودولت کے امتیازات کاخاتمہ کردیا جوبہت سے اختلافات کی جڑ ہوتے ہیں،آپ نے انہیں بے بنیاد امتیازات کاخاتمہ کرنے کے لئے غلاموں کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا نوش فرمایا ۔
ایک دن وہ تھا جب عرب صرف اپنے اونٹ ،اولاد اور اموال کی کثرت پر ہی نہیں بلکہ اپنے مردوں اور قبروں کی کثرت پر بھی فخرو مباہات کیا کرتے تھے اور عرب کو غیر عرب اور گورے کوکالے پر فوقیت دیتے تھے لیکن رسول اکرم ؐنے جاہلیت کے ان تمام اقدارپر خط بطلان کھینچ دیا اور بلال حبشی،صہیب رومی اور سلمان فارسی کواپنے اصحاب میں شامل کرلیا اور بتایاکہ کالے ،گورے،عرب و عجم اور مال ودولت معیار تفوق وبرتری نہیں ہیں بلکہ تقویٰ ،ایمان اور عمل صالح برتری کااصل معیار ہیں۔
رسول اکرم ؐاسوۂ کامل
یہ بات طۓ ہے کہ انسان کی اجتماعی اور فردی زندگی میں سیرت کوایک خاص اہمیت حاصل ہے ،اس کی نگاہ میں سیرت وہ واحد رکن حیات ہے جو تباہ حال انسانیت کومنزل مقصود دکھانے کے ساتھ ساتھ اس کی زندگی کو واقعی اہداف و مقاصد سے ہمکنار کرتی ہے ۔
خداوندعالم نے انسان کی زندگی کی ترقی اور تکامل میں اسوہ کو کافی اہمیت دی ہے ،اس نے اپنی محبوب کتاب قرآن میں بہت سی سیرتوں کی معرفی کرتے ہوئے انسانوں کواپنی زندگی کیلئے اسوہ اور نمونہ قراردینے کی تاکید کی ہے ،کبھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی پرروشنی ڈال کر ان کی زندگی کو یکتا پرستوں کے لئے اسوہ قرار دیا ہے :(قد کانت لکم اسوة حسنہ فی ابراہیم والذین معہ)۔(١٥)
لیکن قرآن نے جتنی سیرتوں کی معرفی کی ہے وہ تمام کے تمام ایک خاص شعبۂ حیات سے مخصوص ہیں، پوری تاریخ بشریت میں صرف ایک سیرت ایسی ہے جسے انسان اپنی زندگی کے ہر شعبہ کے لئے اسوہ اورنمونہ بنا سکتاہے اور وہ ہے حضرت رسول اکرم کی سیرت۔خدا وندعالم کا ارشادہے :(لقد کا ن لکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ)۔(١٦)
آیت کا خطاب عام ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کی سیرت ہر شعبۂ حیات میں کا ر آمد ہے چاہے وہ فردی زندگی ہو یامعاشرتی واجتماعی زندگی ...۔چاہے وہ کل کے سرپھرے اور ضدی عرب ہوں یا آج کا متعصب انسان ۔
"اخلاق" آپ کی سیرت کانمایاں پہلو ہے جسے آپ کی زندگی سے حاصل کیا گیا عظیم درس کہا جائے تو بے جانہ ہوگا ،خدا وند عالم نے بھی اخلاق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی جامعیت پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے فرمایا:(انک لعلی خلق عظیم )"اے رسول !آپ اخلاق عظیم پر فائز ہیں" ۔(١٧)
صادق آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں خداوندعالم نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کو پسندیدہ اخلاق سے مخصوص و مزین فرمایا ،پس تم اپنا امتحان کرو اگر تم آنحضرت کے نیک اور پسندیدہ اخلاق اپنے اندر دیکھوتوخداوندعالم کی حمد و ثنا بجا لاؤ اور خدا سے درخواست کرو کہ مزید اضافہ فرمائے۔(١٨)
انسانیت سازپیغام
زندگی کاکوئی ایسا شعبہ یاپہلو نہیں جس میں رسول اکرم ؐکے اخلاق و کردار کے نقوش موجود نہ ہوں، آپ نے ہر شعبۂ حیات میں اپنے اخلاق و کردار کا چراغ جلایا ہے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ آپ کے اخلاق و کردار کے نقوش کسی ایک دور حیات سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ آپ کے اخلاق زندگی کے ہر دور میں مشعل ہدایت کی حیثیت رکھتے ہیں ،آپ کا اخلاق جہاں کل کے عرب کے بگڑے ہوئے تاریک ماحول میں روشنی بانٹ رہاتھا اور لوگوں کو صراط مستقیم دکھانے کا ذریعہ تھا وہیں آج کے مادی ترقی یافتہ زمانے کی تزئین و آرائش کاذریعہ بھی ہے ۔
اصل میں آپ کی بعثت کاہدف کائنات فنا میں اخلاقی فضائل و محاسن کی ترویج و تکمیل تھا (بعثت بمکارم الاخلاق و محاسنھا )اسی لئے جب تک کائنات کا وجود ہوگا آپ کے اخلاق و کردار روح کائنات بن کراسے زندگی سے ہمکنار کرتے رہیں گے ۔(١٩)
صادق آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں :میں پسند نہیں کرتاکہ کوئی مسلمان مرجائے مگر یہ کہ وہ رسول اکرم ؐکے آداب و سنن کو (حتی ایک ہی بار )انجام دے ۔یعنی اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے تمام اخلاق کی رعایت نہ کرتے ہوئے مرجائے تو وہ امام صادق صلی اللہ علیہ و آلہ کی نظر میں مبغوض اور ناپسندیدہ ہے۔(٢٠)
اس سے معلوم ہوتاہے کہ رسول اکرم ؐ کے اخلاق کسی ایک دور حیات سے مخصوص نہیں،اس میں اتنی آفاقیت اور ابدیت پائی جاتی ہے کہ ہر دور کا انسان اپنی زندگی میں ان اخلاق کومشعل راہ بناسکتاہے ۔
یوں تو رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے انسانیت ساز اخلاقی پیغامات بہت زیادہ ہیں ،یہاں اختصار کے پیش نظر صرف ایک واقعہ قلمبند کیا جارہا ہے ۔
"امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :ایک دن ایک شخص رسول اکرم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اورکہنے لگا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ!کوئی ایسا درس دیں جس سے میں سعادتمند ہوسکوں ،آپ نے فرمایا:جاؤ اور غصہ سے پرہیز کرو۔اس نے کہا :یہی درس میری زندگی کے لئے کافی ہے،اس کے بعد وہ اپنے قبیلہ میں واپس ہوا ،جب اپنے قبیلہ میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ اسکے قبیلہ کے افراددوسرے قبیلہ سے نبردآزماہیں ،اس نے عجلت میں جنگی لباس پہنا اوراسلحہ لے کر جنگ کے لئے آمادہ ہوا اسی وقت اسے رسول کی بات یاد آئی،اس نے جلدی سے اپنا اسلحہ دور پھینکا اور مخالف گروہ میں جاکر کہنے لگا :اے بھائیو!جتنا خون خرابہ ہوا ہے وہ سب میرے ذمہ ہے میں اس کی دیت ادا کرنے کے لئے آمادہ ہوں ۔وہ لوگ اس کی بات سن کر پر سکون ہوئے اور آپس میں صلح کرلی اور کینہ و کدورت بھی ان کے دلوں سے جاتارہا "۔(٢١)
یہ تھا تلاطم انگیز دریائے اخلاق کا ایک ادنی قطرہ ...جس نے انسانیت ساز کردار ادا کرتے ہوئے انسانوں کو انسان دوستی کاسلیقہ عطا کیا ،اس کے علاوہ سمندر اخلاق کا ہر قطرہ اگر کل کے افراد کے لئے درس عبرت تھا تو آج کے بگڑے ہوئے ماحول کی اہم ترین ضرورت ہے ۔
جاری...
حوالجات
١۔غرر الحکم ٢٣٨٥ ح٨١٥٢
٢۔مستدر ک الوسائل ١ ١٩٣ ح ١٢٧٢١
٣۔تحف العقول ص٧٤
٤۔اخلاقی و نفسیاتی مسائل کاحل ص٤١
٥۔اصول کافی ج٢ص١٠٣ باب حسن خلق
٦۔تحف العقول ص٧٤
٧۔آل عمران ١٥٩
٨۔نہج البلاغہ خطبہ ٨٧
٩۔جامع السعادات ٣١٨٢
١٠۔بحار الانوارج ٥ ص١١٤
١١۔امالی شیخ طوسی ص٤٦٨ ،الدرجات الرفیعہ ص٤١١نقل از ویژگیھای پیامبر اعظم ص٧٥
١٢۔جمعہ ٣
١٣۔مستدر ک الوسائل ١٨٧١١
١٤۔حقائق ص٣١٨ ،نقل از آداب اسلامی٣٧
١٥۔ممتحنہ ٤
١٦۔احزاب ٣١
١٧۔ قلم ١٨
١٨۔فقہ الرضا ٣٥٣
١٩۔سنن النبی ٢١،نقل از ویژگیہای پیامبر اعظم ٥٢
٢٠۔من لا یحضرہ الفقیہ ٤٦٧٣
٢١۔اصول کافی باب الغضب ح۱۱