۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
آیت اللہ حافظ ریاض نجفی

حوزہ/ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان نے خطبہ جمعہ میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین پر طویل عرصہ مسلمانوں کا قبضہ رہا،جب تک وحدت رہی،اسرائیل کے بیت المقدس پر قبضہ کے بعد مراکش میں مسلمان حکمرانوں کے اجلاس میں بیت المقدس آزاد کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ او۔آئی ۔سی بنائی گئی مگر وحدت قائم نہ کی جا سکی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لاہور/ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ مسلمانوں میں نا اتفاقی کی وجہ سے فلسطین و کشمیر کے دیرینہ مسائل حل نہیں کئے جاسکے۔ فلسطین پر طویل عرصہ مسلمانوں کا قبضہ رہا۔جب تک وحدت رہی ، اللہ پر بھروسہ رہا،مسلمان مضبوط رہے۔ اسرائیل کے بیت المقدس پر قبضہ کے بعد مراکش میں مسلمان حکمرانوں کے اجلاس میںبیت المقدس آزاد کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ او۔آئی ۔سی بنائی گئی مگر وحدت قائم نہ کی جا سکی۔قرآن مجید میں واضح حُکم ہے کہ یہودیوں ، نصرانیوں کو دوست اور سرپرست نہ بناﺅ۔جو ان سے دوستی کرے گا انہی میں سے شمار ہو گا۔ پیسے کے لئے غیر مسلموں یا اپنوں کے آگے جھکنا بھی ٹھیک نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تیل سے لے کر سونے تک ہر نعمت سے پاکستان کونوازا ہے۔ہماری نااہلی ہے کہ ان ذخائر سے فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ وحدت کی بجائے ایک دوسرے کو چور ثابت کرنے پر تمام توانائیاں صرف کی جا رہی ہیں۔

علی مسجد ماڈل ٹاﺅن میں خطبہ جمعہ میں کہا کہ قرآن نے کہا کہ مسلمان آپس میں رحم دل اور کفار کے لئے سخت ہوں گے لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل کے آگے جھک رہے ہیں۔ فلسطین ، کشمیر کے مسائل کو مقامی تنازعات کہا جا رہا ہے۔عرب ممالک پسپا ہو رہے ہیں۔ پاکستان نے پھر بھی اسرائیل کے بارے قائد اعظم کے اصولوں کی پاسداری کی ہوئی ہے۔چندمسلمان ملک ایک مسلمان ملک یمن پر حملہ کرتے ہیں۔ہماری پارلیمنٹ نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن جنرل راحیل شریف کو بھیجا گیا مگر پھر بھی یمن کو شکست نہ دی جا سکی۔ یہ وہ ملک ہے جہاں حضور نے حضرت علیؑ کو بھیجا تھا۔ یہ با ایمان قوم ہے۔مدینہ کی ریاست میں تو جائز نہ تھا کہ مسلمان دوسرے مسلمانوں پر حملہ کریں۔یہ کون سا اسلام ہے؟ اگر مظلوم کا ساتھ نہیں دے سکتے تو ظالم کا ساتھ تو نہ دیں۔

حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ مسلمانوں کی وحدت نہ ہونے کے ساتھ ہماری داخلی وحدت کو بھی کمزور کیا جا رہا ہے۔ تمام مسالک کے مدارس کی وحدت کو توڑا گیا۔1954میں جامعہ المنتظر لاہور وجود میں آیا۔علامہ سید صفدر حسین نجفی اور سیٹھ نوازش علی نے اندرون، بیرون ملک کافی مدارس بنائے۔حسبِ توفیق مَیں نے اس کام کو آگے بڑھایا۔ اب ہمارے مدارس کی تعداد 550کے قریب ہے جن میں 21ہزار طلباو طالبات ہیں۔

مولانا سید نیاز حسین نقوی نے نجف اشرف کے علاوہ یہاں بھی مدارس قائم کئے۔اب ان کے قائم مقام مولانا محمد افضل حیدری صاحب ہیں جو بہت با صلاحیت عالمِ دین ہیں ۔ان کے معاون ہمارے بھائی مولانا سید مرید حسین نقوی ہیں جنہوں نے 21 سال ڈنمارک میں کام کیا۔ اسلامی سنٹرز بنائے۔ تنظیمیں قائم کیں۔ ڈنمارک اور اٹلی میں مدارس قائم کئے۔ مولانا سید صفدر حسین نجفی فرماتے تھے افراد آتے جاتے رہتے ہیں،ادارے قائم رہتے ہیں۔جامعة المنتظرامام زمانہ ؑ کا مرکز ہے ۔قائم رہے گا۔ ان اداروں کی تقویت کرنا چاہئے۔

آیت اللہ سیستانی نے چند سال قبل تاکید کی تھی کہ مالی واجبات دینے میں مدارس کو ترجیح دی جائے۔ مدارس سے علماء، خطیب، ذاکرین پیدا ہوتے ہیں۔اس رمضان میںیہاں سے 70 کے قریب طلباءتبلیغ کے لئے گئے ہیں۔

فطرہ کی ادائیگی روزوں کی قبولیت کی ضامن اور اہم فریضہ ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ ماہِ مبارک کے سب ایام بالخصوص جمعة الوداع حددرجہ اہمیت و برکت کا حامل ہے۔کائنات کا نظام اللہ کا ہے جو سب قوتوں ، طاقتوں کا مالک ہے۔انسانوں کو بھی اختیار، قوت، طاقت اُسی کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔اس کا غلط استعمال ہو تو سلب بھی ہو جاتی ہے۔اللہ چاہے تو پل بھر میں طاقت ختم کر کے عبرتناک شکست سے دوچار کر دے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .