حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ایرانی دینی مدارس کے سربراہ آیۃ اللہ علی رضا اعرافی نے کل ایران کے شہر پرند کے عوام کے مختلف طبقات سے ملاقات میں حضرت فاطمہ معصومہ(س)کے یوم وفات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک جگہے سے دوسری جگہے کی طرف ہجرت بڑی اہمیت کی حامل ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم کی متعدد آیات میں ہجرت کے مسئلے پر خصوصی توجہ دی ہے۔
مجلس خبرگان رہبری میں تہران کے عوامی نمائندے نے سورۂ مبارکہ توبہ کی 20ویں آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ خداوند متعال فرماتا ہے کہ «الَّذِینَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ ۚ وَ أُولَٰئِکَ هُمُ الْفَائِزُونَ.جو لوگ ایمان لے آئے،ہجرت کی اور اپنے مال وجان سے راہِ خدا میں جہاد کیا، خدا کے ہاں ان کا مقام ومنزلت بلند ہے اور وہ عظیم نعمت پر فائز ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پوری تاریخ میں رسول خدا(ص)کے زمانے سے لے کر ائمہ ہدیٰ(ع)تک کچھ اہم اور مؤثر ترین ہجرتیں ہوئی ہیں،ان سب کا مقصد خدا کے دین کی حقّانیت کو ثابت کرنا،دین اسلام کی ترویج،قرآن اور حکومت اسلامی کی پاسداری اور حفاظت یا حکومت اسلامی کا قیام تھا۔
آیۃ اللہ اعرافی نے کہا کہ اگر ایک شخص اپنے گھر کو حصول علم اور دینی تعلیمات کے فروغ کے لئے چھوڑ دیتا ہے اور دوسری جگہ ہجرت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا مقام بہت بلند ہے اور اگر وہ اس راہ میں اپنی جان دے دیں تو وہ شہداء میں شمار ہوں گے اور اسلام کی منطق میں اس کی قدر و منزلت بہت بلند ہوگی۔
مجلس خبرگان رہبری کے رکن نے سورۂ مبارکہ نساء کی آیت نمبر 100کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خداوند متعال فرماتا ہے: «وَ مَنْ یُهَاجِرْ فِی سَبِیلِ اللَّهِ یَجِدْ فِی الْأَرْضِ مُرَاغَمًا کَثِیرًا وَسَعَةً ۚ وَمَنْ یَخْرُجْ مِنْ بَیْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَی اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ یُدْرِکْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَی اللَّهِ ۗ وَکَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِیمًا.اور جو شخص خدا کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں بہت سے اور وسیع امن کے خطے پالے گا اورجو شخص اپنے شہر سے خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرے پھر اسے موت آجائے تو اس کا اجر و ثواب خدا پر ہے اور خدا بخشنے والا اورمہربان ہے۔
امام جمعہ قم نے تاریخ کی اہم ہجرتوں کی جانب اشارہ کیا اور مزید کہا کہ پیغمبر اسلام(ص) کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت ایک شاندار اور عظیم ہجرت تھی اور تاریخِ اسلام کی اصل بن گئی۔امیرالمؤمنین امام علی(ع)کی مدینہ سے کوفہ کی جانب ہجرت،جبکہ بعض لوگوں نے مخالفت کی کہ کیوں خلافت کا مرکز مدینہ سے کوفہ منتقل کیا جائے لیکن آپ نے اسلام کے لئے ہجرت کی۔
آیۃ اللہ اعرافی نے تیسری اہم اور تاریخ ساز اسلامی ہجرت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حضرت سید الشہداء(ع)نے ایک موقع پر مدینہ سے مکہ اور کربلا کی طرف ہجرت فرمائی جب اسلام بنی امیہ کے ہاتھوں تباہ ہو رہا تھا لیکن آپ علیہ السلام نے اس ہجرت اور اس عظیم واقعے کے ذریعے تاریخ اسلام کو بدل کر رکھ دیا،آج 1400 سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود جب یوم عاشورا آتا ہے تو امام حسین علیہ السلام کا پرچم پوری دنیا میں بلند ہوتا ہے اور یہ انقلاب اسلامی کی برکات میں سے ہے۔
انہوں نے امام رضا علیہ کی ایران کی طرف اہم اور تاریخی ہجرت کی طرف اشارہ کیا اور مزید کہا کہ یہ ہجرت وہ واحد ہجرت تھی کہ جس میں ایک امام اور معصوم ولی(ع)جزیرۂ عرب سے نکل کر کسی اور سرزمین میں داخل ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے آٹھویں امام نے ایران کی طرف ہجرت مامون کے دباؤ اور سازشوں کے تحت فرمائی اور امام نے امامت کے اعلیٰ اہداف و مقاصد کے تناظر میں ان دھمکیوں اور سازشوں کو فرصت میں بدل دیا اور ایرانیوں نے خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام کے تعلیمات سے آشنا ہو کر اسلام اور شیعیت اختیار کر لی۔
ایرانی دینی مدارس کے سربراہ نے کہا کہ ایران میں امام رضا (ع)کی موجودگی ایران اور دنیا کی تاریخ میں اہم پیشرفت اور تبدیلیوں کا ذریعہ بنی اور اس کے بعد امام علیہ السلام کے ارادے کے مطابق حضرت فاطمہ معصومہ(س)کی ہجرت گرانقدر آثار و برکات ساتھ لے آئی۔ قم سمیت ایران کے دیگر شہروں میں 400 سے زائد امام زادوں کا مبارک وجود اس نورانی ہجرت کا مرہون منت ہے۔
امامجمعہ قم نے اس بات کی نشاندہی کی کہ حضرت فاطمہ معصومہ(س)کی ایران اور شہر قم کی طرف ہجرت بہت سے خیرات اور اثرات کا ذریعہ بنی ہے اور اس عظیم المرتبت خاتون کی موجودگی سے قم دینی اور اسلامی علوم و فکر کا مرکز بن گیا ہے۔قم میں علم و معرفت کا چراغ تاریخی نشیب و فراز کے باوجود کبھی بجھ نہیں سکا ہے اور گزشتہ 100 سالوں میں اس شہر کے اندر جہاں تشیع کے حوزہ ہائے علمیہ میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔
ایرانی دینی مدارس کے سربراہ نے مزید کہا کہ اس عظیم المرتبت خاتون کے نورانی حرم کی بدولت،شہر مقدس قم اس وقت ایک لاکھ سے زیادہ دینی مدارس کے طلباء اور 70،000 یونیورسٹی کے طلباء کی اعلیٰ تعلیم کے مراکز اور 100 ممالک سے غیر ایرانی طلباء کی موجودگی کا مشاہدہ کر رہا ہے۔