۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
مکارم شیرازی

حوزہ / عرب خصوصاً مکہ کے لوگ اپنی سرزمین سے بہت دلچسپی رکھتے تھے اس لیے ابتدا میں یہ ضروری تھا کہ ان کی نفسانی خواہشات اور مقامی تعصبات کے برخلاف کچھ مدت کے لیے کعبۃ اللہ کے بجائے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کی جائے تاکہ اس طرح ان کے تعصبات کا بھی خاتمہ ہو جائے اور ان میں اطاعت اور فرمانبرداری کے جذبے کو تقویت ملے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ مکارم شیرازی نے اپنی کتاب "پاسخ بہ پرسشہای مذہبی" یعنی "مذہبی سوالات کے جواب" میں مسلمانوں کے قبلہ کی تبدیلی سے متعلق ایک سوال کا جواب دیا ہے جو کہ درج ذیل ہے:

سوال: ہم جانتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں بیت المقدس کچھ عرصہ مسلمانوں کا قبلہ رہا تو پھر کن عوامل کی وجہ سے کعبہ قبلہ بن گیا؟

جواب: جیسا کہ قرآن کریم کی آیات سے استفادہ ہوتا ہے مسلمانوں کا قبلہ درحقیقت کعبہ (بیت اللہ الحرام) تھا اور بیت المقدس کو بعض جہات کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے "عارضی قبلہ" کے طور پر قرار دیا گیا تھا جو کہ ہوں گے۔ آیت قرآن کریم «قَدْ نَرَی تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فِی السَّمَاءِ فَلَنُوَّلیَنَّکَ قِبْلَة تَرْضَاهَا…؛ "یعنی (اے محمدﷺ) ہم تمہارا آسمان کی طرف منہ پھیر پھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں۔ سو ہم تم کو اسی قبلے کی طرف جس کو تم پسند کرتے ہو، منہ کرنے کا حکم دیں گے"۔ (سوره بقره، آیه ۱۴۴)

یہ آیت اس بات پر گواہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس کے قبلہ ہونے کے بارے میں یہودیوں کی گفتگو سے رنجیدہ تھے اور وہ مسلسل اس انتظار میں تھا کہ کب عارضی قبلہ ختم ہو اور خداوندِ متعال کی طرف سے مسلمانوں کے ابدی قبلہ کا اعلان ہو جائے۔

لیکن یہ سوال کہ کیوں کعبہ کو شروع سے ہی ابدی قبلہ کے طور پر مسلمانوں کو متعارف نہیں کرایا گیا بلکہ انہیں عارضی طور پر بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے کی تلقین کی گئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ جیسا کہ آیتِ کریمہ «… وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِی کُنْتَ عَلَیْهَا اِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ یَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ یَنْقَلِبُ عَلَی عَقَبَیْهِ…؛ یعنی "اور جس قبلے پر تم (پہلے) تھے، اس کو ہم نے اس لیے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں، کون (ہمارے) پیغمبر کا تابع رہتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے"(سوره بقره، آیه ۱۴3)، سے استفادہ ہوتا ہے کہ یہ موضوع صرف مسلمانوں کی تربیت کے لیے تھا اور ایسا صرف اس لئے کیا گیا تھا تاکہ تازہ مسلمان ہونے والے افراد میں اطاعت کا جذبہ پیدا کیا جا سکے اور اسلام کے مقدس مقصد کو آگے بڑھایا جا سکے۔

عرب خصوصاً مکہ کے لوگ اپنی سرزمین سے بہت دلچسپی رکھتے تھے اس لیے ابتدا میں یہ ضروری تھا کہ ان کی نفسانی خواہشات اور مقامی تعصبات کے برخلاف کچھ مدت کے لیے کعبۃ اللہ کے بجائے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کی جائے تاکہ اس طرح ان کے تعصبات کا بھی خاتمہ ہو جائے اور ان میں اطاعت اور فرمانبرداری کے جذبے کو تقویت ملے۔

اس کے علاوہ، مسلمانوں کو عارضی طور پر بیت المقدس، جو کہ یہودیوں کی طاقت کا مرکز اور ان کا دارالحکومت تھا، پر توجہ دلانا اور اس سے عبرت دلانا مقصود تھا۔ بیت المقدس دنیا کے لئے سبق آموز میوزیم اور بنی اسرائیل کی عزت و ذلت کا مقام ہے ۔ بیت المقدس میں اس قوم کے ترقی اور زوال کے اسباب واضح ہیں۔ بنی اسرائیل مصر سے ذلت کے ساتھ وہاں آکر آباد ہوئے اور انہیں جہاد اور قربانی کے ساتھ عزت سے نوازا گیا اور پھر وہ خدا کے حکم کی نافرمانی کی وجہ سے دوبارہ ذلت آمیز راستے پر گر پڑے لہذا ان کی زندگی ان مسلمانوں کے لیے ایک سبق اور عبرت تھی جو ابھی تازہ اس مقدس مذہب میں داخل ہوئے تھے۔ مسلمانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر خانہ کعبہ کو ان کا مستقل قبلہ قرار دیا گیا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ ان کے لیے مقامی اور نسلی مرکز کے طور پر ہے بلکہ اس لیے کہ یہ توحید اور خدا شناسی کا قدیمی ترین مرکز ہے کہ جو توحید کے عظیم پیروکار شخصیت کے ہاتھوں تعمیر کیا گیا ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .