حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،صوبہ تلنگانہ ثقافتی، علمی،تاریخی غرض مختلف گوشوں سے دو ملکوں (ہندوستان اور ایران) کے درمیان ایک اہم ثقافتی و تمدنی کردار ادا کرتا رہا ہے۔ حیدرآباد اور جنوب ہند میں پانچ سو سالہ ایرانیوں کا وجود اسی کے ساتھ ساتھ ایرانی دانشوروں کا وجود دونوں ملکوں کے درمیان رابطہ کا ایک اہم سبب ہے اور یہ رابطہ اتنا گہرا ہے کہ اگر کوئی تاریخ داں ثقافتی میراث کو محفوظ کرنا چاہے تو دو ملکوں کی مکمل تاریخ پڑھے بغیر اور ان کے ماضی و حال کا مطالعہ کئے بغیر قید تحریر میں نہیں لا سکتا۔
ہندوستان و ایران کے گذشتہ تعلقات کو پیش نظر رکھتے ہوئے سن 1400ہجری شمسی میں انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر (ایران کلچر ہاؤس دہلی) نے مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی کے ساتھ معاہدہ (MOU) کیا ہے تاکہ ہندوستان و ایران کے درمیان مشترک علمی وثقافتی میراث کو محفوظ کیا جاسکے۔
اس معاہدہ کا مقصد علمی سطح کو اوپر لانا، تاریخ دکن میں تحقیق کرنا، مشترک پروجکٹ پر کام کرنا، حیدرآباد کے آثار قدیمہ کے متعلق تحقیق کرنا، فہرست نگاری، پرانی عبارتوں کو صحیح کرنا، شورٹ کورس منعقد کرنا، کانفرنس منعقد کرنا، مشترک میراث کو محفوظ کرنا، ہندوستان و ایران کو پہچاننا، پرانی کتابوں کی مرمت اور آثار قدیمہ کی حفاظت کرنا ہے۔
یہ معاہدہ انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر کے ڈائریکٹر جناب ڈاکٹر مہدی خواجہ پیری اور ادبیات فارسی کے مشہور و معروف استاد اور مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر عین الحسن کے درمیان ہوا جو ڈائریکٹر آف تاریخ ہارون خان شروانی، پروفیسر سلمیٰ احمد، یونیورسٹی کی ڈین پروفیسرسنیم فاطمہ، رجسٹرار آف یونیورسٹی پروفیسر اشتیاق احمد اور آقائے اکبر نیرومند جیسی شخصیتوں کی موجودگی میں انجام پایا۔ یہ بھی بتاتے چلیں کہ اس معاہدہ میں پروفیسر عزیز الدین حسین ہمدانی کا اہم کردار رہا۔