حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،دتیا(مدھیہ پردیش)/نیمہ شعبان کے پر مسرت موقع پر پوری دنیا میں جشن ہائے مسرت اور محافل مقاصدہ کا اہتمام ہوتا ہے۔ہندوستان کے صوبہ مدھیہ پردیش واقع دتیا شہر میں با بصیرت جوانوں نے فکری بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے حجت آخر حضرت ولیعصر علیہ السلام کی ولادت با سعادت کے پر مسرت موقع پر دو روزہ نور عصر مہدوی کلاسیز کا اہتمام کیا۔جس میں جواں سال مبلغ مولانا سید حیدر عباس رضوی نے اپنے لکچر کے ذریعہ الگ الگ نشستوں میں امام مہدی علیہ السلام کے سلسلہ میں نہایت مفید اور اہم مطالب بیان کئے۔
تصویری جھلکیاں: دتیا مدھیہ پردیش میں نور عصر مہدوی کلاسیز و محفل کا با شکوہ اہتمام
17 اور 18 مارچ کو دتیا شہر کے امام بارگاہ گلشن زہرا کی فضا منور و معطر تھی جہاں محور زمین و زمان حجت دوران کا تذکرہ کلاسیز کے ضمن میں ہو رہا تھا۔
17 مارچ کو شب 8 بجے نور عصر کلاس کا باقاعدہ آغاز قاری وسیم دتیاوی نے تلاوت سے کیا جس کے بعد نیمہ شعبان کی مناسبت سے دتیا کے مقبول و مشہور مداح جناب عترت دتیاوی نے منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا اور مولانا سید حیدر عباس رضوی کو دعوت سخن دی۔
شہر کے بزرگوں اور معزز حضرات نے مولانا موصوف کا گلپوشی کے ذریعہ استقبال کیا۔ مولانا سید حیدر عباس رضوی نے دو گھنٹے تک جاری رہنے والے پہلے سیشن میں بڑی تعداد میں موجود پیر و جواں،خورد و کلاں اور مرد و زن کے درمیان بیان کیا کہ شیعہ سنی معتبر منابع میں یہ حدیث موجود ہے کہ جو اپنے دور کے امام کی معرفت اور شناخت کے بغیر مر جائے اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔یہ کلاسیز معرفت کے حصول کا ذریعہ بننے کے ساتھ جاہلیت کی موت سے نجات کا سبب قرار پائیں گے۔
تاریخی شواہد سے معرفت امام کے چند نمونے بیان کرتے ہوئے مولانا نے اضافہ کیا کہ امام زمانہ کا تصور اس اعتبار سے بین الادیان مشترک نظر آتا ہے کہ ہر کسی کو ایک منجی اور موعود کا انتظار ہے۔
اس کلاس میں آخری حجت خدا کی زندگی کے تین ادوار (خفا،غیبت اور ظہور) کا مفصل بیان ہوا۔ پہلے جلسہ کے بود وقفہ کا اعلان دعای امام زمان کی قرائت کے ساتھ ہوا۔
دوسرا سیشن کا آغاز مداح اہلبیت جناب محمد علی دتیاوی کے منظوم نذرانہ عقیدت سے ہوا۔جن کی دلنشیں آواز نے فضا میں چار چاند لگا دئے تھے۔اس سیشن میں معروف اسکالر مولانا سید حیدر عباس رضوی نے امام غائب کے فرائض بیان کئے اور ساتھ ہی نظام مرجعیت پر تا دیر گفتگو کی۔بعض جید فقہاء و مجتہدین جیسے شیخ صدوق،مقدس اردبیلی،شیخ انصاری،مرزائے شیرازی،امام خمینی،آقای خامنہ ای اور آقای سیستانی کا تذکرہ کرنے کے ضمن میں مولانا سید حیدر عباس نے بیان کیا کہ جاپانی محقق فوکویاما نے اسلام دشمن طاقتوں کے سامنے اس بات کو واضح لفظوں میں بیان کر دیا تھا کہ ان شیعوں کو غلامی کی زنجیروں میں نہیں جوڑا جا سکتا کیونکہ ان کے پاس عقیدہ عاشورا اور عقیدہ کربلا دونوں ہے ۔جو ان میں جذبہ شہادت بیدار کرتا ہے اور حوصلہ بخشتا ہے کہ آج کا ظالم ظلم کر لے لیکن یہ یاد رکھے کہ آنے والا دن ہمارا ہوگا اقتدار ہمارا ہوگا نظام ہمارا ہوگا امام ہمارا ہوگا اور ظلم کا خاتمہ ہوگا۔
دوسرے سیشن کے آخر میں سوال جواب کا سلسلہ رہا جس میں متعدد سوالات کئے گئے جب کسی جواں نے حجاب کے مسئلہ میں سوال کیا تو مولانا سید حیدر عباس رضوی نے کرناٹک مسئلہ میں دو ٹوک بات کہی کہ عدلیہ اور ملکی قوانین ہمارے لئے قابل احترام ہیں لیکن مذہبی جذبات کو مسلسل ٹھیس پینچ رہی جو ملک کے جمہوری نظام کے لئے اچھی علامت نہیں۔
مولانا نے واضح لفظوں میں جواب دیا کہ قرآن مجید میں پانچ مقامات پر کلمہ حجاب آیا ہے۔قرآن مجید میں خاتون کو حکم ملا کہ گھر میں جمی بیٹھی رہو اور اپنے چہرے و زیبائی کی نمائش نہ کرو۔اسی لئے مناسب لباس زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔موجودہ دور میں فیشن اور جدت پسندی کے نام پر بے حیائی اور نے غیرتی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ LGBT کمیونٹی وجود میں آگئی اور فطری تقاضوں کے مطابق جنسی خواہشات پوری کرنے والے کو اسٹریٹ کا نام دیا جانے لگا۔ضرورت ہے کہ مذہب و دھرم سے بالاتر ہو کر انسانی اقدار مد نظر رکھتے ہوئے حجاب کی پابندی کے ساتھ علم و عمل کی راہ میں آگے بڑھا جائے تا کہ ملک کا نام بھی روشن ہو سکے۔یہ اجلاس رات 12 بجے تک جاری رہا۔
18 مارچ کو اس مہدوی نور عصر کلاسیز کا آغاز صبح 9 بجے دعائے ندبہ کی تلاوت سے ہوا۔جس کے بعد مولانا سید حیدر عباس رضوی نے بیان کیا کہ آج سے تقریبا تیس برس قبل جب امام مہدی کے سلسلہ میں سعودی عرب کی سرزمین پر ایک کانفرنس ہوتی ہے تو اس کے کنوینر ڈاکٹر عبد المحسن کو کہنا پڑتا ہے کہ مہدویت کا انکار ممکن نہیں۔مولانا موصوف نے عقلی اور نقلی دلائل کے ذریعہ وجود امام پر گفتگو کی۔غیبت صغری و غیبت کبری کا مفصل تذکرہ کیا۔اس کے بعد علامات ظہور بیان کرتے ہوئے پانچ حتمی علامات بیان فرمائے اور بقیہ علامتوں کو غیر حتمی قرار دیا۔ان غیر حتمی علامتوں میں دجال کا خروج بھی ہے۔
ظہور کے بعد امام کا منشور سیاست کیا ہوگا اور آپ کا طریقہ کار کیا ہوگا اس سلسلہ میں مفصل روشنی ڈالی گئی۔بعض احادیث کے سہارے جو لوگ اسلامی انقلاب پر سوالیہ نشان قائم کرتے ہیں انہیں بہت ہی آسان زبان اور سادہ طریقے سے جواب دیا گیا۔اذان ظہر سے قبل اس جلسہ کا اختتام چند اہم سوالات پر ہوا جن کا مولانا موصوف نے نہایت خوش اسلوبی جواب دیا۔ان سوالات میں اخباریت،مراسم عزا،شناخت عالم جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔
اس سیشن کے اختتام پر مومنین جامع مسجد پہنچے جہاں مولانا سید حیدر عباس رضوی کی امامت میں نماز جمعہ ادا کی۔ بعد مغرب آخری جلسہ بعنوان محفل مسرت ہوا جس میں نظامت کے فرائض جناب عترت دتیاوی نے انجام دئے۔ننھے ننھے بچوں سمیت جوان و نوجوان اور بزرگوں نے بہترین انداز سے اشعار کا نذرانہ پیش کیا۔مسجد دیدہ زیب روشنی سے منور تھی اور فضا نعرہ تکبیر،نعرہ رسالت اور نعرہ حیدری سے معطر۔
محفل مقاصدہ کے آخر میں مولانا سید حیدر عباس رضوی نے نظم و نثر میں گفتگو کی۔مولانا نے نام نہاد اگنیہوتری جیسے فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والے کے اس بیان کی مذمت کی جس میں امام خمینی کی شان میں گستاخانہ لہجہ اختیار کیا یہ شیوہ کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔خمینی اس مرد آہن کا نام ہے جس نے دنیا کے مظلومین و مستضعفین اور مرحومین کو حق طلبی کا ہنر سکھایا اور جس نے اپنی گود کے پالوں کو شہید ہوتا دیکھا۔
محفل آئندہ برس تک کے لئے ملتوی کئے جانے کا اعلان ہوا جس کے بعد مومنین نے مولانا سید حیدر عباس رضوی کی معیت میں شب نیمہ شعبان کے اعمال انجام دئے۔
اضافہ کرتے چلیں کہ دتیا شہر میں اس کلاس کے اہتمام نے سماج میں نئی روح پھونک دی ۔ فکری تغذیہ کے لئے کتابخانہ علم دانش کی طرف سے بہترین طباعت کے ساتھ عظیم مرجع تقلید آقای سیستانی کا نصیحت نامہ تقسیم ہوا اور نور عصر کلاس کا اہتمام کرنے والے جوانوں کی طرف سے دیدہ زیب مہدوی پوسٹر اور کتاب بھی شرکاء میں تقسیم کی گئی ۔