حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سعودی عرب کا انسانی حقوق کے حوالے سے ایک تاریک ریکارڈ ہے اور اس نے گزشتہ برسوں کے دوران غیر قانونی سزائے موت، تشدد، من مانی گرفتاریاں، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے شہریوں کے اغوا، سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی حراست اور مذہبی اقلیتوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔
سعودی عرب میں جائز مطالبات کو دبانا معمول بنتا جا رہا ہے۔ آل سعود حکومت دنیا کے ہر قسم کے انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہے، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ پیسے کے بوجھ سے اپنے جرائم اور جرائم کو دباتی ہے۔
روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق، "نورا بنت سعید القحطانی" کو حالیہ دنوں میں سعودی عرب کی خصوصی فوجداری عدالت نے سعودی معاشرے کے اصولوں کی خلاف ورزی کرنے کے لیے انٹرنیٹ استعمال کرنے، سوشل میڈیا کے استعمال کرنے اور قوانین کی خلاف ورزی پر 45 سال قید کی سزا سنائی ہے۔
دوسری جانب سعودی سرکاری میڈیا نے نورا بنت سعید القحطانی کی گرفتاری پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ ساتھ ہی آل سعود حکومت کے کسی بھی عہدیدار نے اس بارے میں بات کرنے سے انکار کیا ہے۔ جب کہ انسانی حقوق کی تنظیم ’ڈان‘ نے قحطانی اور ان کی پوسٹ سے متعلق معلومات سوشل نیٹ ورک پر شیئر کی ہیں۔
واضح رہے کہاس سے قبل بھی سعودی عرب کی آل سعود حکومت کی ایک عدالت نے دو بچوں کی ماں سلمیٰ شہاب کو امریکی صدر جو بائیڈن کے دورہ ریاض کے فوراً بعد ٹویٹ کرنے پر 34 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ سعودی عدالت کی جانب سے سلمیٰ شہاب کے خلاف سنائی گئی سزا کے کچھ ہی دنوں بعد عدالت نے ایک بار پھر نورا بنت سعید القحطانی نامی خاتون کو 45 سال قید کی سزا سنائی ہے۔