۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
مولانا ارشد مدنی

حوزہ/ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے صاف لفظوں میں کہا کہ ہمارا اعتراض موجودہ حالات میں فرقہ پرست ذہنیت کے سلسلے میں ہے، مدارس کا سروے کرانے کے حکم پر نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ مدارس کا سروے ضروری تو دوسرے تعلیمی اداروں کا سروے کیوں نہیں؟

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،نئی دہلی/مولانا ارشد مدنی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں گزشتہ کچھ برسوں کے دوران فرقہ پرست طاقتوں نے جس طرح نفرت کا ماحول قائم کردیا ہے اور اس سلسلہ میں حکومت کا جو کردار رہا ہے اس کے پیش نظر مسلمان یہ یقین کرنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ اس وقت ہر پالیسی اس کے وجود کو تباہ و برباد کر دینے کے لیے سامنے آرہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دینی مدارس فرقہ پرستوں کی آنکھ کے کانٹے ہیں اس لئے ہمیں ان کی نیتوں کو سمجھنا ہوگا، مدارس کے نظام کو درست کرنے کی بات اپنی جگہ لیکن ہمیں ان کے لیے کمربستہ ہونا ہوگا کیونکہ کہ یہ مدارس قوم کی شہہ رگ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ ہمارے دینی اداروں کو دستور میں دیئے گئے حق کی بنیاد پر چلنے دیا جائے لیکن فرقہ پرست انہیں ختم کرنے کی ناپاک سازش میں مبتلا ہیں، مگر ہم ان شاء اللہ انہیں ایسا ہرگز نہیں کرنے دیں گے، مدارس اسلامیہ کا وجود ملک کی مخالفت کے لیے نہیں اس کی تعمیر وترقی کے لیے ہے، مدارس کا ڈیڑھ سوسالہ کردار اس کا گواہ ہے۔

ایک سوال کے جواب میں مولانا مدنی نے کہا کہ دوسری طرف ریاست آسام میں مدرسوں کو یہ کہہ کر ڈھایا جارہا ہے کہ یہ دہشت گردی کے مراکز ہیں اور بدامنی پھیلانے والی القاعدہ کے دفاتر بنے ہوئے ہیں، یہی وہ بنیادی سبب ہے جس کی وجہ سے اترپردیش میں جب تمام غیر منظور شدہ مدارس کا سروے کرانے کا سرکلر جاری ہوا ہے تو مسلمانوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے خدشات اٹھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کا سرکلر جاری کرنے سے پہلے مسلمانوں کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا، انہیں مطمئن کیا جانا چاہیے تھا، سرکار کی نیت پر شک کو کچھ اس لئے بھی تقویت مل رہی ہے کہ اترپردیش میں بڑی تعداد میں غیر منظور شدہ دوسرے تعلیمی ادارے بھی چل رہے ہیں۔ چنانچہ اگر غیر منظور شدہ مدارس کا سروے ضروری ہے تو دوسرے غیر منظور شدہ تعلیمی اداروں کا سروے ضروری کیوں نہیں؟ سرکارکی نیت اگر درست ہے تویہ امتیاز کیوں؟ مدارس کہاں ہیں، کس زمین پر قائم ہیں اور انہیں چلانے والے کون ہیں اگر سروے کا مقصد یہی ہے تو ہم نہیں سمجھتے کہ اس میں کوئی غلط بات ہے، مسلمان تعاون کرنے کو تیار ہیں، یوں بھی مدارس کے دروازے تو ہمیشہ سے سب کے لیے کھلے ہیں، ان کے اندر چھپانے جیسی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ سب کچھ آئینہ کی طرح صاف ہے۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ آسام کے وزیر اعلیٰ بے بنیاد الزام تراشی کرکے مدارس کے انہدام کو درست ٹھہرانے کی کوشش کررہے ہیں، سوال یہ ہے کہ جو الزام وہ لگارہے ہیں، اس کا ان کے پاس ثبوت کیا ہے، میرا دعویٰ ہے کہ وہ قیامت تک کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکتے، زبان سے آدمی توکچھ بھی کہہ دے۔ مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ آسام کے وزیراعلیٰ کانگریس کے دور میں بھی وزیر رہے ہیں، بی جے پی اقتدار میں آئی تواس وقت بھی وزیر ہوئے، مگر اب جبکہ وہ خود وزیراعلیٰ بن چکے ہیں آسام کے مدارس انہیں القاعدہ کے دفتر نظر آنے لگے، سوال یہ ہے کہ جب وہ وزیر تھے تب انہیں کہیں القاعدہ کیوں نظر نہیں آیا؟

مولانا مدنی نے وضاحت کی کہ مدرسوں میں خالص مذہبی تعلیم دی جاتی ہے، اوراس کا اختیار ہمیں ملک کے آئین نے دیا ہے، آئین میں ہمیں اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور انہیں چلانے کا مکمل حق بھی دیا ہے۔ مدارس میں قرآن وحدیث کی تعلیم میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہمارے مدارس کے طلبا بھی ٹرینوں کو آگ لگاتے، دفتروں اور بسوں کو جلاتے اور سڑکوں پر نکل کر ہنگامہ آرائی کرتے، بلکہ وہ تو کالجوں اور یونیورسیٹیوں کے طلبا جنہوں نے پچھلے دنوں کتنے ہی ٹرینوں میں آگ لگائی اور سڑکوں پر اترکر پر تشدد ہنگامہ کیا، توکیا یہ مان لیا جائے کہ ملک کے کالجوں اور یونیورسیٹیوں میں اب دہشت گردی کی تعلیم دی جارہی ہے؟

انہوں نے مزید کہا کہ ابھی حال ہی میں یوپی کے وزیراعلیٰ سہارنپور کے دورہ پر گئے تھے، تو بعض فرقہ پرست حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ یہاں شیخ الہند کے نام پر جو میڈیکل کالج ہے اس کا نام بدل دیا جائے، اس پر وزیراعلیٰ نے یہ جواب دیا کہ جن کے نام پر یہ کالج ہے وہ بہت بڑے مجاہد آزادی تھے، میں اس وقت بیمار تھا اور ہسپتال میں تھا، میرا جی چاہتا تھا کہ وزیراعلیٰ کو ایک ستائشی خط لکھ کر انہیں اس کے لئے مبارک باد دوں، کیونکہ انہوں نے اس تاریخی سچائی کا اعتراف کیا ہے، ایسے میں یہ بڑا سوال پیدا ہوتا ہے کہ شیخ الہند اگر ایک عظیم مجاہدآزادی تھے توان کے شاگرد اور علمی اولادوں کی اولادیں دیش ورودھی کیوں کر ہوسکتی ہے اور ان کے ذریعہ قائم کئے گئے یہ مدارس دہشت گردی کے مرکز کیسے ہوسکتے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ تاریخی سچ یہ ہے کہ یہ ہمارے علماء اور اکابر ہی تھے جنہوں نے اس وقت ملک کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے کا خواب دیکھا جب پوری قوم سورہی تھی، اس کے لئے ہمارے علماء اور اکابرین نے قیدوبند کی صعوبیتیں ہی براداشت نہیں کیں بلکہ اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا آج ہمارے انہی اکابرین کے ذریعہ لگائے گئے ان درختوں کو جڑسے کاٹ دینے کی سازشیں آسام میں ہورہی ہیں، ان کی اولادوں کو غدار اور ملک دشمن قرار دیاجارہا ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ وہ لوگ جو کالجوں اوریونی ورسیٹیوں سے پڑھ کر نکلے ملک کی لاکھوں ہزارکروڑ کی دولت سمیٹ کر ملک سے فرار ہوچکے ہیں، ملک کے عام شہری غربت وافلاس اورمہنگائی میں دب کر موت سے بدتر زندگی بسر کررہے ہیں، اوریہ لوگ ملک کا اثاثہ لوٹ کر غیر ممالک میں عیش کررہے ہیں، کیا یہ دیش دروہی نہیں ہیں؟ اور کیا یہ پتہ لگانے کی کوشش نہیں ہوگی کہ ان میں کتنے مسلمان ہیں،؟ سچ تویہ ہے کہ ان کی گردنوں تک قانون کے ہاتھ اب تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .