۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
بین گوئر

حوزہ؍عبرانی زبان کے ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ صہیونی پارلیمانی انتخابات میں سرکردہ امیدوار بنجمن نیتن یاہو نے آخرکار جیوش پاور پارٹی کے سربراہ «‎ایتامار بن‌گویر» سے ملاقات کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق؍یہ ملاقات پیر کی شام نئی اسرائیلی کابینہ کی تشکیل کے لیے ہونے والی مشاورت کے سلسلے میں ہوئی۔بن گوئر ان تین انتہا پسند صہیونی جماعتوں میں سے ایک کا لیڈر ہے جس کے ساتھ نیتن یاہو مستقبل کی کابینہ کی تشکیل کے لیے سیاسی اتحاد بنانے جا رہا ہے۔

انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد 5 دنوں میں نیتن یاہو کی بن گویر سے یہ پہلی ملاقات ہے۔

اطلاعات کے مطابق نیتن یاہو نے اپنی پوری سیاسی زندگی میں کوشش کی کہ بن گیور کے ساتھ اتحاد نہ کیا جائے۔

بن گوئر اپنی پارٹی کے لیے داخلی سلامتی اور تعلیم کی وزارت کے دو عہدہ چاہتا ہے، یہ بنیاد پرست اور انتہا پسند صہیونی شخصیت نسل پرستی اور انتہا پسندانہ اقدامات کے لیے جانی جاتی ہے، جن میں ہتھیار کا استعمال اور عربوں کو ہتھیاروں سے ڈرانا بھی شامل ہے، اور یہاں تک کہ اس پر عدالتی مقدمے میں بھی ایک نسل پرستی کا درج کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق؛ اس سال رمضان المبارک میں بن گوئر کے اقدامات اور مسجد اقصیٰ میں اس کے داخلے کے ساتھ ساتھ شیخ جراح میں پچھلے دو سالوں میں مکانات کو ویران اور قبضہ کرنے کے مقصد سے اس کے دیگر اقدامات نے اسے انتہا پسندوں کا ایک مقبول چہرہ بنا دیا ہے۔

یدیعوت آحارونوت (Yediot Aharonot) اخبار نے اس سال جون میں (مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کے بعد) لکھا تھا کہ ایک ٹیم نے بن گوئر کو قتل کرنے، گھریلو ساختہ گرینیڈ بنانے، اسرائیلی فوجیوں کو اغوا کرنے اور یروشلم کے سب وے پر ڈرون سے حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

وہ فلسطینیوں کو بغیر کسی شرط و شروط کے قتل کرنے کے حق میں بھی ہے اور اس سے پہلے اس نے کہا تھا: ’’حکومت فوج کو غزہ کی پٹی کے ارد گرد کی بستیوں پر فائر کیے جانے والے ہر راکٹ کے بدلے پچاس فلسطینیوں کو مارنے کی مکمل آزادی دے، غزہ سے ملحقہ بستیوں میں فلسطینیوں کو نشانہ بنایا جائے کیونکہ اسرائیلی خوف میں رہتے ہیں اور حکومت ان پر توجہ نہیں دیتی اس لیے کہ وہ دوسرے درجے کے اسرائیلی ہیں جو تباہی کے بعد ایک بار پھر سے اپنی زندگیوں کو دوبارہ بنا رہے ہیں۔" اس قسم کی سوچ رکھنے والے شخص کو ملے زیادہ ووٹ صہیونی معاشرے کی انتہا پسندی کی طرف بڑھتی ہوئی فکر کو واضح طور پر ظاہر کرتی ہے ہے۔

بن گوئر کے اقتدار میں آنے سے یورپی اور امریکی ممالک میں تل ابیب کے بہت سے اتحادیوں کو تشویش کا سامنا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .