حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، دسیوں ہزار مظاہرین نے تل ابیب اور دیگر اسرائیلی شہروں میں بینجمن نیتن یاہو کی حکومت کے عدالتی نظام میں بنیادی تبدیلیاں کرنے کے منصوبے کے خلاف مظاہرے کیے۔
مقبوضہ فلسطین کے بعض مقامی میڈیا کے مطابق تل ابیب کے مرکز میں ہفتہ کے روز لگ بھگ ایک لاکھ افراد نے مسلسل 22ویں ہفتے بھی احتجاجی ریلی نکالی۔
مقبوضہ فلسطین کے رہائشی اور 55 سالہ ڈینٹسٹ ایلیٹ فین نے نیتن یاہو کے خلاف مظاہرے کی وجہ کے بارے میں کہا: ’’ہم اپنا مظاہرہ جاری رکھیں گے تاکہ انھیں یہ دکھایا جا سکے کہ اگر انھوں نے اصلاحاتی منصوبے پر توقف بھی کیا ہو، تب بھی ہم اسی طرح آمادہ رہیں گے تا کہ وہ کبھی بھی اچانک دھوکہ دے کر قانون پاس نہ کر سکیں۔
مقبوضہ فلسطین میں ہفتے کے روز ہونے والے مظاہرے ایسے حالات میں کیے گئے جب نیتن یاہو کی کابینہ اور اپوزیشن صیہونی صدر اسحاق ہرزوگ کی ثالثی سے عدالتی ڈھانچے میں اصلاحات کے منصوبے پر سمجھوتہ کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں لیکن ان مذاکرات سے کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکل سکا ۔
66 سالہ صیہونی آرنون اوشیری نے فرانسیسی رپورٹر کے ساتھ ایک انٹرویو میں بات کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی کہ نیتن یاہو کے خلاف مظاہرے کیوں جاری ہیں، انہوں نے کہا کہ ’’اسرائیل کے ڈکٹیٹر بننے کے امکان کو ختم کرنا ضروری ہے، یہ کرپٹ حکومت قانون شکنی کرنے والوں سے بھری پڑی ہے جو ہمارے ملک کی سطح کو گرانا چاہتے ہیں اور اسے ایک پچھڑے ہوئے ملک کی قطار میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔