تحریر: شاہنواز احمد صدیقی
ایران اس وقت اہل مغرب کی آنکھوں میں اس طرح کھٹک رہا ہے جس طرح ایک زمانے میں لیبیا کے انقلابی لیڈر کرنل معمرقذافی یا عراق کے صدر صدام حسین کھٹکتے تھے۔
ایران کو نیوکلیر ہتھیاروں کے بنانے کے الزام میں گھیرابندی کی جارہی ہے مگراس سے قبل عراق کی گھیرابندی کا انتظام بڑے پیمانے پر تباہی مچانے والے اسلحہ Weapon of Mass Destruction (WMD) کے بہانے کیا گیا تھا۔ بعدازاں عرب اور افریقی ملکوں میں جمہوریت تھوپنے کی سازش کی گئی۔ اس کی آڑ میں کئی ملکوں میں عدم استحکام پیدا کرنے میں کامیابی ملی اور کئی ممالک میں اس سازش کو ناکام بنا دیا گیا۔ اس سازش کو ناکام بنانے والے ملکوں میں سب سے اہم ملک مصر، سعودی عرب اور بحرین ہیں جن ملکوں میں اس ’’جمہوریت پسندوں‘‘ کی کوششوں کی وجہ سے عدم استحکام پیدا کیا گیا۔ ان میں تیونش، شام اور لیبیا شامل ہیں۔ مغربی مفاد پرستوں Non State Actors کی مدد سے تیل کی دولت سے مالامال اور خوشحال ملکوں کی ایسی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے کہ وہاں آج تک ہر شخص اپنی جان ہتھیلی پر لئے پھر رہا ہے۔ بالکل اس طرز پر اس وقت ایران کوخلفشار میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
امریکہ کے سابق صدر براک اوباما نے عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد مشرق و اسلامی ممالک کے ساتھ غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کے لئے ایک مشن شروع کیا تھا ۔ انہوں نے مصر کی تاریخی قاہرہ یونیورسٹی کو عالم اسلام کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لئے منتخب کیا گویا وہ اپنے ملک کے عالم اسلام کی بات چیت کی وہ اس پہل کو ایک سنجیدہ اور خلیج پاٹنے کی کوشش کو سنجیدہ عمل قراردینے کی کوشش کر رہے تھے۔ مگران کی اس وقت کی کوشش کو اس لئے اخلاص پر مبنی اور پرخلوص قرارنہیں دیا جاسکتا کیونکہ اوباما کے دوراقتدار میں اوران کی روشن خیال اور خواتین اور لبرل سماج کی حامی اور ممدوح ہلیری کلنٹن نے لیبیا جیسے خوشحال ، خواتین کی آزادی، خودمختاری اور صنفی توازن اور مساوی حقوق کے حامل ملک کی ایسی اینٹ سے اینٹ بجائی کہ ملک جس میں دودھ کی نہریں بہتی تھیں آج تک وہ ملک خانہ جنگی سے بدحال اور بے حال ہے۔ اس کی سڑکوں پر خون بہہ رہا ہے۔ ہر شخص برادرکشی پر آمادہ ہے۔
بہرحال اب مغربی ایشیا کی ایک اہم طاقت ایران کو گھیرنے کی کوشش کی جارہی ہے پچھلے دنوں اسرائیل میں عام انتخابات کی مہم کے دوران جب وہاں کی سیکورٹی فورسیز فلسطین میں عام شہریوں کے ساتھ بدترین سلوک کر رہی تھیں اوران معصوموں کو معمولی معمولی بہانے سے موت کے گھاٹ اتار رہاتھا تو امریکی صدر جوبائیڈن اسرائیلی صدر کے ساتھ ایران کے نیوکلیر پروگرام پر مذاکرات کر رہے تھے۔ ایسے حالات میں بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغربی طاقتوں کی ترجیحات کیا ہیں۔
امریکہ اور ایران کے درمیان نیوکلیر سمجھوتہ ہوا ہے اسے جوائنٹ کومپری ہینسو پلان آف ایکشن (Joint Comprehinsive Plan of Action) (جے سی پی اواے) کہتے ہیں۔ دونوں ملکوںکے درمیان اس سمجھوتہ پر دوسال کے مذاکرات کے بعد 14؍جولائی 2015 کو دستخط کئے گئے تھے۔ اس سمجھوتہ کی رو سے پی 5پلس (یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین جو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے مستقل ممبران ہیں اورویٹو طاقت کے حال ہیں )کے ساتھ جرمنی اس سمجھوتہ کے دستخط کنندگان میں شامل ہیں۔ اس سمجھوتے کا مقصد ایران کو نیوکلیر ہتھیار بنانے سے روکنا تھا۔
ا س سمجھوتے کے تحت درج ذیل التزامات کئے گئے تھے۔
-ایران 300کلوگرام سے کم ہی یورینیم افزودہ کرپائے گا یعنی ایٹمی افزودگی کی مقدار 300کلوگرام سے زیادہ نہیں ہوسکی۔
یعنی ایران صرف 15سال کے لئے یہ 300کلوگرام تک کی مقدار کی یورنیم ہیگزافلورائڈ (Uranium Hexaflouride) اسٹاک رکھ پائے گا۔
-ایران 15سال کی مدت کے لئے یورینیم کو 3.67فیصد ہی افزودہ کرسکتا ہے۔
خیال رہے کہ ہتھیار بنانے کے لئے یورینیم کی افزودگی کی درکار شرح 90فیصد ہے۔ یعنی اگر کوئی ملک یورینیم کو 90فیصد کی سطح پر افزودہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو وہ جوہری ہتھیار بناسکتا ہے۔
اس سمجھوتے کے تحت ایک التزام یہ بھی تھا کہ ایران صرف اپنے نصب آلات کی تعداد کو کم کرکے دوتہائی سطح پر لے آئے گا اور اپنے ابتدائی سطح کے ہی آلات کو صرف دس سال کی مدت کے لئے استعمال کرپائے گا۔
-ایران اپنے زیرزمین فردو (Fordow) نیوکلیر مرکز پر پندرہ سال کے لئے نہ تو نیوکلیر مواد رکھ پائے گا اور نہ ہی وہاں جوہری افزودگی کے عمل کرسکے گا۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔