حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکی محکمہ خزانہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے ایک بین الاقوامی چینل کے ارکان پر پابندی لگا دی ہے جو ان کے بقول حزب اللہ اور آئی جی سی کو فنڈز فراہم کرنے کے لیے تیل کی تجارت کرتے تھے۔
اس طرح امریکہ نے 6 افراد، 17 کمپنیوں اور 11 جہازوں پر پابندی لگا دی ہے۔ جن پر پابندی عائد کی گئی ہے ان میں ایران، سوئٹزرلینڈ، لبنان اور فرانس کے شہری شامل ہیں۔
جن سترہ کمپنیاں امریکی پابندیوں کی زد میں آئی ہیں ان کا تعلق متحدہ عرب امارات، سوئٹزرلینڈ، مارشل آئی لینڈ، سنگاپور اور ترکی سے ہے۔ جہازوں پر پانامہ، جبوتی، لائبیریا اور کُک آئی لینڈ کے جھنڈوں کے ساتھ امریکی سفر پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف نئی پابندیوں کا مقصد دراصل تہران کی غیر ملکی زرمبادلہ کی کمائی کو روکنا ہے۔ ایران کو چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے امریکہ کی جانب سے پابندیوں کا سامنا ہے۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبرداری کے بعد ایران کے خلاف غیر معمولی پابندیاں عائد کر دیں۔ ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ ایران پابندیوں کے دباؤ میں آکر امریکہ کے غیر قانونی اور غیر معقول مطالبات کے سامنے جھک جائے۔ اگرچہ امریکہ کی جانب سے تہران کے خلاف پہلے ہی بڑی پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں جس کا مقصد ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا ہے لیکن موجودہ امریکی صدر بائیڈن خود ان پابندیوں کی ناکامی کا اعتراف کر چکے ہیں۔ دوسری جانب امریکہ نے ایران میں خلفشار کا بہانہ بنا کر جوہری مذاکرات ملتوی کر دیے ہیں۔ اب امریکی حکام بھی ایران میں حالیہ بدامنی کے بارے میں مداخلت کرنے والے بیانات دے رہے ہیں۔
امریکی صدر نے جمعرات کو اپنے خطاب میں کہا ہے کہ فکر نہ کریں ہم ایران کو آزاد کر دیں گے۔ ہم ایران کو آزاد کرکے زندہ رہیں گے۔ وہ جلد آزاد ہو جائیں گے۔ امریکی صدر کا یہ بیان ایران کے بارے میں وائٹ ہاؤس کی سوچ کو واضح کرتا ہے۔ جو بائیڈن نے جب دیکھا کہ پابندیاں بے اثر ہو رہی ہیں اور ضرورت سے زیادہ دباؤ کی پالیسی بھی جواب نہیں دے رہی تو انہوں نے ٹرمپ کی انارکی پھیلانے کی پالیسی پر عمل کرنا شروع کر دیا جس کی ناکامی 13 آبان کی ریلیوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔