حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ نیوز ایجنسی کی یہ تعارفی نشست ایران کے شہر قم میں امت واحدہ پاکستان کی جانب سے ایران و عراق کے سفر پر آئے ان متعدد پاکستانی علماء کرام کے ہوٹل پر منعقد ہوئی۔
رپورٹ کے مطابق اس ملاقات میں حوزہ نیوز ایجنسی کے شعبہ اردو زبان سے جناب سید محمود رضوی، اظہر باقر اور سید عقیل عباس نے حوزہ نیوز کی سرگرمیوں اور صلاحیتوں کا تعارف کرایا۔ اسی طرح بعض پاکستانی علماء کرام کے ساتھ انٹرویوز بھی کیے گئے۔
جامعہ انوار الاسلام کے بانی سید عبداللہ شاہ الحسینی نے اپنی گفتگو کے دوران حوزہ نیوز ایجنسی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مقدس مقامات کی حرمت و احترام کے تحفظ کی سوچ کو دونوں برادر ممالک کے لئے اتحاد و وحدت کی علامت قرار دیا اور کہا: ہم نے یہاں مشاہدہ کیا ہے کہ اہلسنت کی طرح کہ جو مشترکات کو مدنظر رکھتے ہوئے اتحاد اور وحدت پر تاکید کرتے ہیں، شیعہ علماء اور عمائدین بھی مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے قیام اور تفرقہ اور اختلافات سے بچنے پر زور دیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: کاش پاکستان کے انتہا پسند افراد بھی ان باتوں کو سنتے اور ان پر واضح ہو جاتا کہ اصلِ شیعیت کیا ہے اور وہ اس سلسلہ میں اسلام دشمن عناصر کی باتوں سے کس قدر دھوکہ کھا چکے ہیں۔
فیصل آباد، پاکستان سے تعلق رکھنے والے جامعہ عثمانیہ کے سربراہ مفتی محمد مظفر اقبال نے بھی کہا: ایک دوسرے سے دوریاں نفرتیں پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں لیکن ایک دوسرے کے قریب رہنے اور باہم مل بیٹھنے اور گفتگو کرنے سے محبتیں پیدا ہوتی ہیں اور مسائل ختم ہوتے ہیں کیونکہ مسائل اور شکوک و شبہات اس وقت تک باقی رہتے ہیں جب تک ان کو صحیح طرح مطرح نہیں کیا جاتا۔
انہوں نے کہا: میں اپنے دوستوں اور ہمسفر ساتھیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ انہیں جو محبتیں اور تعلیمات ایران سے ملی ہیں وہ انہیں دوسروں تک بھی پہنچائیں تاکہ ہمارے لوگوں کو ایرانی عوام کی اچھائیوں کا علم ہو۔
انہوں نے مزید کہا: ہم نے یہاں علماء کرام کے بیانات سے بہت استفادہ کیا، ان کی باتیں بہت اثر انگیز تھیں اور میں چاہتا ہوں کہ ایرانی علماء کا ایک گروپ بھی ہمارے سفر کی طرح پاکستان آئے کیونکہ جب ایرانی علماء پاکستان آئیں گے تو وہاں لاکھوں لوگ ان کی باتوں کو سنیں گے اور اس کا بہت اچھا اثر ہو گا۔
جامعۃ الازہر مصر کے فارغ التحصیل سید امجد علی کاظمی نے اپنی گفتگو کے دوران کہا: ہم نے یہاں دیکھا کہ ایک دوسرے کے متعلق عدمِ آگاہی اور جہالت اختلافات کا باعث بنتی ہے۔ پاکستان میں شیعہ مذہب کو صرف ماتم اور عزاداری وغیرہ کی حد تک متعارف کرایا گیا ہے اور اس کے برعکس شیعہ مذہب کی حقیقت کو بالکل متعارف نہیں کرایا گیا۔ اس لیے علماء و مشائخ کو آگے آنا چاہیے تاکہ وہ حدالامکان معاشرے سے جہالت کو دور کر سکیں۔ یاد رہے کہ اہل بیت (ع) سے محبت اور دوستی ہمارے لئے نکتۂ اتحاد کی حیثیت رکھتی ہے کہ جس سے بہترین استفادہ کرنا چاہیے۔
پاکستانی علماء میں سے ایک حجت الاسلام والمسلمین عباس رضوی نے بھی گفتگو کرتے ہوئے کہا: حوزہ نیوز ایجنسی کے لیے یہ مناسب ہو گا کہ وہ ایک ایسا ماحول پیدا کرے جہاں پاکستان کے تمام مکاتب فکر، اداروں اور ان کے ذمہ داران کی شناخت کر کے ایک علمی نشست منعقد کی جائے۔ آپ دیکھیں گے کہ باہمی گفتگو کے ذریعہ کس قدر ایسے اشکالات اور شکوک و شبہات ہیں جو فقط باہمی گفتگو کے ذریعہ ہی حل ہو جاتے ہیں۔
شاعر، مصنف اور "فروغِ نعت" میگزین کے مالک سید شاکر القادری نے بھی گفتگو کرتے ہوئے کہا: ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پاکستان میں عام لوگوں کی سطح پر تعلیمی کام شروع کریں تاکہ معاشرہ ایک دوسرے کو اچھی طرح جان سکیں۔
انہوں نے کہا: ایک ادارہ قائم کیا جائے جس کی ذمہ داری ایسا مواد تیار کرنا ہو جس میں دونوں فریقوں کی مشترکات شامل ہوں اور جہاں معاشرے کے مشترکہ شکوک و شبہات کا ازالہ کیا جائے اور فریقین کے علمائے کرام سے استفادہ کر کے شبہات کا جواب دیا جائے۔
قابلِ ذکر ہے کہ اس نشست میں جمعیت علمائے پاکستان کی جانب سے محمد تنویر راٹھور، ابرار شاہ اور ارتضیٰ زیدی نے بھی اپنی آراء اور تجاویز پیش کیں۔