۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
امام علی نقی الہادی ؑ

حوزہ/ ‘‘جنیدی’’ جو پہلے اہل بیت علیہم السلام کا شدید ترین دشمن تھا لیکن کچھ عرصہ امام علی نقی علیہ السلام سے ارتباط کے سبب مخلص شیعہ ہو گیا۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی |

انتخاب و ترجمہ: مولانا سید علی ہاشم عابدی

1۔ کیا یہ پیغمبر ہیں؟
جناب ابو ہاشم جعفری سے مروی ہے کہ میں مدینہ میں تھا اس وقت نویں عباسی حاکم واثق کی حکومت تھی ، اسکی فوج ایک ترک کمانڈر کی قیادت میں عرب باغیوں کی بغاوت کو کچلنے کے لئے مدینہ میں داخل ہوئی۔ ایک دن امام علی نقی علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا: چلو ، آج اس ترک کمانڈر کی فوج کو نزدیک سے دیکھتے ہیں ۔ ہم سب آپ کے ہمراہ وہاں گئے۔ امام علی نقی علیہ السلام نے ان سے ترکی زبان میں بات کی ، امام علی نقی علیہ السلام سے ترکی زبان میں گفتگو سنتے ہی وہ ترک کمانڈر اپنے گھوڑے سے اترا اور امام ؑ کے گھوڑے کے سموں کا بوسہ لیا۔
ابو ہاشم جعفری کہتے ہیں کہ میں نے اس ترک کمانڈر سے پوچھا کہ امام علی نقی علیہ السلام نے تم سے کیا فرمایا کہ تم نے اس قدر ان سے اظہار احترام و محبت کیا؟
ترک کمانڈر نے پوچھا: کیا یہ عظیم شخصیت پیغمبر ہیں؟
میں نے کہا نہیں ۔
اس نے کہا :انھوں نے مجھے میرے اس نام سے مخاطب فرمایا کہ جس نام سے بچپن میں مجھے ترکی میں پکارا جاتا تھا ،اس نام کی کسی کو آج تک اطلاع نہیں تھی۔
(نگاهی بر زندگی چهارده معصوم, شیخ عباس قمی, ص 428)

2۔ رعب امامت
علامہ طبرسیؒ نے روایت نقل فرمائی۔ محمد بن حسن اشتر علوی کا بیان ہے کہ میں اپنے والد کے ہمراہ (دسویں عباسی حاکم) متوکل عباسی کے محل کے پاس کھڑا تھا ، وہاں آل ابوطالبؑ اور بنی عباس کے کچھ لوگ موجود تھے ، نیز کچھ شیعہ بھی وہاں موجود تھے۔ وہاں موجود لوگوں میں میں نوجوان تھا باقی سب بزرگ تھے ۔اچانک وہاں امام علی نقی علیہ السلام تشریف لائے تو سب لوگ آپؑ کے احترام میں اپنی اپنی سواریوں سے اترے، امام ؑ متوکل کے محل میں تشریف لے گئے ۔ وہاں موجود لوگوں میں سے کچھ نے ایک دوسرے سے کہا کہ آخر ہم اس جوان (امام علی نقی علیہ السلام ) کے احترام میں کیوں اپنی سورایوں سے اتریں ، خدا کی قسم !اب ہم ان کے احترام میں اپنی سواریوں سے نہیں اتریں گے۔
ابوہاشم جعفری ؒ نے سب کو خطاب کرتے ہوئے کہا : خدا کی قسم! جب تم امام علی نقی علیہ السلام کو دوبارہ دیکھو گے تب بھی انتہائی عاجزی اور احترام سے اپنی سواریوں سے اتر جاؤ گے۔
تھوڑی دیر نہیں گذری تھی کہ امام علی نقی علیہ السلام متوکل کے محل سے باہر تشریف لائے ، جیسے ہی حاضرین کی نگاہ آپؑ پر پڑی سب بے ساختہ اپنی سواریوں سے نیچے اتر گئے۔ ابوہاشم جعفریؒ نے ان سے کہا : مگر میں نے نہیں کہا تھا کہ امامؑ کو دیکھتے ہی تم سب اپنی سواریوں سے اتر جاؤ گے۔ ان لوگوں نے کہا : خدا کی قسم! جیسے ہی ہماری نظر آپؑ پر پڑی ہم خود کو سواری پر روک نہ پائے اور اتر گئے۔
(نگاهی بر زندگی چهارده معصوم, شیخ عباس قمی, ص 431)

3۔ بیمار کی مدد
بن علی سے روایت ہے ۔ میں بیمار تھا ، شام کے وقت ڈاکٹر مجھے دیکھنے آیا اور اس نے میرے لئے ایک دوا لکھی جسے چند دن پینا تھا لیکن دوا کا انتظام کرنا میرے بس میں نہیں تھا، ڈاکٹر میرے پاس موجود ہی تھا کہ امام علی نقی علیہ السلام کاخادم آیا جس کے ہاتھ میں ایک شیشی تھی اور اس میں وہی دوا تھی ، اس نے مجھ سے کہا کہ امامؑ نے تمہیں سلام کہلایا ہے اور فرمایا ہے کہ اس دوا کو چند دن استعمال کرو تو صحت یاب ہو جاؤ گے۔
بن علی کا بیان ہے کہ میں نے وہ دوا لی اور اسے پیا اور صحت یاب ہو گیا۔
(اصول كافى ، باب مولد ابى الحسن على بن محمدعلیہ السلام)

4۔ شکر خدا
محمد بن سنان کا بیان ہے کہ میں امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو امام ؑ نے مجھ سے پوچھا کہ ائے محمد ! آل فرج کا کیا ہوا؟
عرض کیا : عمر بن فرج (حاکم مدینہ) مر گیا۔ یہ سننا تھا کہ امام علی نقی علیہ السلام نے 24؍ مرتبہ الحمد للہ کہا ۔
عرض کیا کہ مولا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ اس خبر سے آپ اس قدر مسرور ہوں گے تو برہنہ پا دوڑتا ہوا آتا اور یہ خبر دیتا۔
امام ؑ نے فرمایا: ائے محمد! کیا جانتے ہو اس ملعون نے میرے والد محمد بن علی (امام تقی) علیہ السلام سے کیا کہا تھا؟ عرض کیا نہیں جانتا ۔
امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا: میرے والد اس سے کسی موضوع پر گفتگو کر رہے تھے تو اس نے جواب میں گستاخی کرتے ہوئے کہا: مجھے لگتا ہے آپؑ نشہ میں ہیں۔
یہ سننا تھا کہ میرے والد نے بارگاہ خدا میں عرض کیا: خدایا! تو جانتا ہے کہ میں نے آج تیری رضا (خوشنودی) کے لئے روزہ رکھا ہے، پس اسے غارت، ذلت اور اسیری کا مزہ چکھا دے، خدا کی قسم ! چند دن نہ گذرے تھے کہ اسکا تمام مال و دولت غارت ہو گیا اور وہ اسیر ہو گیا اور اب وہ مر گیا۔ خدا اس پر رحمت نہ کرے ، خدا نے اس سے انتقام لیا اور ہمیشہ اپنے دوستوں کا ان کے دشمنوں سے بدلہ لیتا ہے۔
(اصول كافى ، باب مولد ابى جعفر محمدبن على الثانى عليہ السلام)

5۔ عدو شود سبب خیر اگر خدا خواهد
امام محمد تقی علیہ السلام کی شہادت سے دو سال قبل جب معتصم عباسی نے آپؑ کو مدینہ سے بغدار بلایا تو اس وقت امام علی نقی علیہ السلام کی عمر مبارک چھ برس تھی اور آپؑ اپنی والدہ اور بھائی، بہنوں کے ساتھ مدینہ میں مقیم تھے۔
جب امام محمد تقی علیہ السلام بغداد پہنچے تو معتصم نے اپنے کارندے سے آپؑ کے گھر والوں کے سلسلہ میں سوال کیا ، جب اسے یہ معلوم ہوا کہ امام محمد تقی علیہ السلام کے بڑے فرزند چھ برس کے ہیں تو اس نے کہا کہ یہ تو خطرناک ہے ، ہمیں اس کا کوئی علاج کرنا ہو گا۔
معتصم نے اپنے ایک قریبی شخص کو حکم دیا کہ وہ بغداد سے مدینہ جائے اور وہاں کسی ایسے شخص کو تلاش کرے جو اہل بیت علیہم السلام کا شدید دشمن ہو اور اس بچے کو اس کے حوالے کرے تاکہ وہ اس کی ایسی تربیت کرے کہ وہ بچہ اپنے خاندان کا دشمن اور حکومت کا حامی بن جائے۔
وہ شخص بغداد سے مدینہ آیا اور اس نے ‘‘جنیدی ’’ نامی عالم جو اہل بیت علیہم السلام کے شدید ترین دشمنوں میں تھا ، سے ملا اور کہا کہ حاکم معتصم چاہتا ہے کہ تم اس بچے کی ایسی تربیت کرو کہ یہ اپنے خاندان کا دشمن اور حکومت کا حامی بن جائے۔ اس بچے کو تمہارے حوالے کرتے ہیں کسی کو اس سے ملنے نہ دینا یہ حاکم کا حکم ہے۔
کچھ دن بعد حکومت کے ایک کارندے نے ‘‘جنیدی’’ کو دیکھا تو اس سے اس سلسلہ میں سوال کیا تو اس نے جواب میں کہا : جسے تم بچہ سمجھ رہے ہو کیا واقعاً وہ بچہ ہے؟ میں اس کو ایک ادب بتاتا ہوں تو وہ ادب کے ابواب بیان کرتا ہے، اس کے بیان سے میں خود استفادہ کرتا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس نے کہاں تعلیم حاصل کی ہے۔ جب وہ حجرہ میں جانا چاہتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ پہلے قرآن کریم کے کسی ایک سورہ کی تلاوت کرو تب حجرہ میں جاؤ تو وہ مجھ سے پوچھتا ہے: کس سورہ کی تلاوت کروں؟ میں اس سے کہتا ہوں کہ کسی بڑے سورہ مثلاً آل عمران کی تلاوت کرو تو وہ اس کی تلاوت کرتا ہے اور سخت الفاظ کے معنیٰ بھی بیان کرتا ہے اور وضاحت بھی کرتا ہے ، جس سے میں خود استفادہ کرتا ہوں۔ وہ عالم ہے، قرآن کریم کا حافظ اور تاویل و تفسیر کا جاننے والا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں اس کا استاد ہوں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ میرا استاد ہے۔
‘‘جنیدی’’ جو پہلے اہل بیت علیہم السلام کا شدید ترین دشمن تھا لیکن کچھ عرصہ امام علی نقی علیہ السلام سے ارتباط کے سبب مخلص شیعہ ہو گیا۔

(کتاب مأثر الکبراء فی تاریخ سامراء)

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .