۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
News ID: 393674
12 اکتوبر 2023 - 19:32
سچی پیشن گوئی

حوزہ/ تشیع کے لیے  فخر کی بات ہے کہ رہبر معظم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی سیاسی بصیرت کے بارے خود دشمن معترف ہے اور دنیا کے سیاسی معادلات کو تبدیل کرنے میں ان کے بیانات کا ایک بنیادی کردار ہے۔

تحریر: ابو ثائر مجلسی

حوزہ نیوز ایجنسی | شاید آپ نے اپنے اطراف میں ایسے لوگوں کو دیکھا ہوگا جو لوگوں کے ہاتھوں کی لکیریں دیکھ کر ان کے مستقبل کی پیشین گوئی کرتے ہیں اور اس جوتشی،اور غیب گوئی کے ذریعے سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں عام طور پر دینی تعلیمات سے دور افراد ان جیسی خرافات کو اہمیت دیتے ہیں یہاں تک کہ یہ غیب گوئی اور جوتشی کا عمل ہمارے مسلمان معاشرے میں کثرت سے رائج ہے اور خصوصی طور پر خواتین ان خرافات کو نسبتا زیادہ اہمیت دیتی ہیں-

ایک طرف ان جوتشی اور غیب گو افراد کی اسرائیلیات اور دوسری طرف مغرب کے وہ مشہور ستارہ شناس اور غیب کی خبر دینے والے افراد جن کی باتوں کو آج کی دنیا میں اورسیاسی حلقوں بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے مثال کے طور پر فرانس کا مشھور ستارہ شناس اور نجومی جو کہ Nostradamus کے نام سے مشھور ہے جس کی پیشن گوئیوں کو بنیاد بناتے ہوئے اب تک کئی فیلمیں بھی بنائی جا چکی ہیں اور اس کی کتابیں بھی کافی مشھور ہیں-

لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے مسلمان معاشروں میں بھی اس طرح کے افراد خصوصا غیر دینی بنیادوں پر مستقبل کی پیشن گوئی کرنے والوں کو اہمیت دی جاتی لیکن اس کے برعکس جو الہی وعدے خدا نے قرآں کریم میں انسانوں کے مستقبل کے بارے میں دیے اور اہلبیت علیھم السلام کی تعلیمات جو ہمارے مستقبل کے بارے میں ہیں اس کی نسبت یا تو ہم لاعلم ہیں یا تو غافل۔

مستقبل کی پیشن گوئی اگردینی اور علمی بنیادوں پر ہوں نہ صرف مطلوب ہیں بلکہ معاشرے کی ترقی کے لیے ضروری بھی ہیں تا کہ اس پیشن گوئی کی بنیاد پر لوگ اپنے لیے حکمت عملی تیار کریں اور ترقی اور کمال کے سفر میں آگے بڑھیں۔

ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس عصر میں خداوند متعال نے مسلمانوں کو بالخصوص شیعیان حیدر کرار کو ایک ایسے عظیم لیڈر سے نوازا ہے جس کی مستقبل کی پیشن گوئیاں بالترتیب سچ ثابت ہوتی جارہی ہیں۔تشیع کے لیے فخر کی بات ہے کہ رہبر معظم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی سیاسی بصیرت کے بارے خود دشمن معترف ہے اور دنیا کے سیاسی معادلات کو تبدیل کرنے میں ان کے بیانات کا ایک بنیادی کردار ہے۔ یہاں ہم رھبر معظم کی ان چند پیشنگوئیوں کا ذکر کرتے ہیں جو اب تک سچ ثابت ہوسکیں ہیں :

۱۔بشار الاسد باقی رہے گا :

استکباری طاقتوں کی جانب سے شام میں ہونے والی جنگ میں بنیادی ہدف بشارالاسد کو ہٹانا تھا اور اس مقصد کے حصول میں اسکتباری طاقتوں نے شام میں داخلی طور فضا کو نا امن اور ایک جنگ کو مسلط کی اور بڑے پیمانے پر شام کی موجودہ حکومت کو نقصان پہنچایا دنیا کے تمام بڑے سیاسی لیڈر اور تجزیہ نگاروں کی نظر یہی تھی کہ بشارالاسد کی حکومت گر جائیگی اور اس جنگ میں شام کو شکست ہوگی لیکن رہبرمعظم نے اس جنگ کے آغاز میں اپنے ایک بیان میں فرمایا کہ "بشار الاسد باقی رہے گا" اور دنیا نے آج دیکھ لیا کہ پوری دنیا کی استکباری طاقتیں جمع ہوگئی تا کہ کسی نہ کسی طرح بشارالاسد کی حکومت کو گراسکیں لیکن وہ اس میں ناکام ہوئے۔

۲-حزب اللہ کی فتح یقینی ہے :

۲۰۰۶ میں ۳۳ روزہ جنگ میں کے آغاز سے قبل حزب اللہ نے اسرائیل کے دو فوجی یرغمال بنائے تھے جس پر غاصب صہیونی حکومت نے لبنان پر حملہ کیا- اس دوران داخلی طور لبنان میں اور دوسرے ممالک حزب اللہ کو اس بات پر متھم کررہے تھے کہ ۲ فوجیوں کی خاطر پورے ملک کو خطرے میں ڈال دیا اس بات کو حزب اللہ لبنان کے جنرل سیکٹری سید حسن نصراللہ نے اور شھید حاج قاسم سلیمانی نے بیان کیا جنگ کے عروج پر ہم اس فکر میں تھے کہ اسرائیل کا مقابلہ کیسے کیا جائیگا کیونکہ اسرائیل کی جانب سے شدید حملے جاری تھے ایسے میں رہبر معظم نے ایک خط کے ذریعے ہمیں یہ نوید سنائی کہ "تمام تر سختیوں کے باجود حزب اللہ کی فتح یقینی ہے"

۳-عراق میں امریکا کی شکست:

۱۱ سپتمبر ۲۰٠۰ کے حادثے کو بہانا بنا کر امریکی حکومت نے عراق اور افغانستان پر جنگ مسلط کی انہی ایام میں رہبر معظم نے یہ پیشن گوئی کی کہ امریکا عراق میں شکست سے دوچار ہوگا-اور ہم نے عراق اور افغانستان میں امریکا کی شکست کو مشاہدہ کیا۔

۴-ملت یمن اور انصار اللہ کی فتح یقینی ہے :

رہبر معظم نے 2018 میں اپنے ایک تقریر میں بیان فرماتے ہیں "وہ ملت اور قوم جو اللہ پر بھروسہ رکھتی ہے اور مقاومت کے ساتھ ڈٹے رہتی ہے خدا ان کی مدد کرتا ہے- یہ ایک الہی سنت ہے۔ آج ملت یمن آمریکا کی سربراہی میں سعودی حکومت کی جانب سے ہونے والے مظالم کا مقابلہ کر رہی ہے لیکن یہ یاد رہے "ملت یمن اور انصاراللہ کی فتح یقینی ہے" اور اس پیشن گوئی کو حال ہی میں ہم نے متحقق ہوتے ہوے دیکھا ہے۔

۵۔ سامراجی طاقتیں زوال پذیر ہیں :

رہبر معظم ایک عرصے دراز سے اس نکتے کی جانب اشارہ فرما رہے ہیں کہ امریکا کی حکومت زوال پذیری کا سفر طے کر رہی ہے اور حالیہ دنوں دوباری اپنے ایک خطاب میں رہبر معظم نے فرمایا : مغربی و سامراجی طاقتیں زوال پذیر ہیں۔ دنیا میں امریکہ کی طاقت کے انڈیکیٹرز تنزل کا شکار ہیں۔ امریکہ کی طاقت کا ایک ‏اہم انڈیکٹر اس کا طاقتور اقتصاد تھا اور اب وہ خود کہتے ہیں کہ زوال کا شکار ہو گیا ہے۔امریکہ کی طاقت کا ایک اور اشاریہ حکومتوں کے معاملات میں اس کی مداخلت کا امکان تھا۔ آج یہ معدوم ہو رہا ہے۔ آج امریکہ جن حکومتوں پر وار کرنا چاہتا ہے انھیں نقصان پہنچانے کے لئے بھاری اخراجات سے ہائی برڈ جنگ شروع کرتا ہے اور وہ بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتی۔ اور آج اس کا مشاھدہ ہم اپنی آنکھوں سے کر رہے ہیں۔

۶-اسرائیل اگلے ۲۵ سال نہیں دیکھ پائیگا :

یہ وہ مشہور جملہ ہے جس نے تمام دنیا کے سیاسی لیڈروں کو ورتہ حیرت میں ڈال دیا کہ کیسے ممکن ہے کہ دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور انٹیلیجینس اور آرمی رکھنے والی ریاست ۲۵ سال بعد اس کا وجود ختم ہوجائیگا کل تک اس بات کا تسلیم کرنا دنیا کے تمام تر سیاسی رہنما اور تجزیہ اور تحلیل پیش کرنے والے افراد کے کافی سخت تھا لیکن حالیہ دنوں میں غاصب صہیونی ریاست کے خلاف حماس کی جانب سے طوفان الاقصی آپریشن نے یہ ثابت کردیا کہ اسرائیل کی انٹیلیجنس اور جدید ترین جنگی تنصیبات ایمانی طاقت کے مد مقابل ان کی کوئی حیثیت نہیں اس آپریشن کے ذریعے سے صہیونی ریاست پر ایک ایسی ضرب لگی ہے جس کے بارے میں رھبر معظم نے۱۰ اکتوبر ۲۰۲۳ کو فرمایا" اس ویران گر زلزلے نے صہیونی ریاست کے ڈھانچے کو ایسا ویران کیا کہ اسے دوبارہ کھڑا کرنا آسانی سے ممکن نہیں" اس بات یہ سے یہ نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ اسرائیل اپنی نابودی کا سفر کافی حد تک طے کرچکا اور انشاء اللہ ہم اس جرثومہ کو جلد از جلد صفحہ ہستی سے مٹتے ہوئے دیکھیں گے۔

در حقیقت یہاں کوئی یہ سوال پوچھ سکتا ہے کہ کس بنیاد پر اور کس طرح رہبر معظم اس قدر دقیق اور سچی پیشن گوئیاں کرتے ہیں جس کو دوسرے درک نہیں کرپاتے میں یہاں پر رہبر معظم کی عرفانی مشاھدات و مکاشفات کی طرف بلکل بھی ناظر نہیں رہوں گا اور نہ ہی ان کی شخصیت کو بطور معصوم پیش کرنا چاہتا ہوں بلکہ رہبر معظم کی ان خصوصیات کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا جو کہ ہمارے لیے عقلی طور پر قابل درک ہیں۔

پہلی خصوصیت یہ ہے کہ رہبر معظم کو دنیا کے سیاسی معاملات ہوں یا حکومتی امور ہوں یا پھر زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے دیگر تمام معاملات میں اس قدر بہترین اور کامل احاطہ ہے کہ جب بھی کسی فیلڈ کے متخصص افراد رہبر کے حضور جاتے ہیں وہ خود انگشت بہ دہن رہ جاتے ہیں کہ رہبر معظم اس قدر مصروفیات کے باوجود اس فیلڈ میں کس قدر گہری نظر رکھتے ہیں- تو بس پہلی خصوصیت یہ ہے کہ مسائل پر اشراف اور احاطہ ہونے کی وجہ سے مستقبل کی بہترین پیشن گوئی اوردیگر تمام امور میں اس قدر متقن نظردے پاتے ہیں۔

دوسری خصوصیت : مستقبل کی پیشن گوئی ہو یا درست تحلیل اس وقت ممکن ہوسکتی ہے جب آپ کے پاس درست انفارمیشن ہو میرا نہیں خیال کہ دنیا کے کسی بھی سیاسی لیڈر کے پاس انفارمیشن کلیکٹ کرنے کا جو سیسٹم رہبر کے پاس ہے وہ ان کے پاس ہو کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ رہبر معظم جس فیلڈ یا موضوع پر گفتو کرتے ہیں اس کے بارے میں مکمل انفارمیشن رکھتے ہیں اور پھر وہ اپنی انفارمیشن کو کئی ذرائع سے تصدیق بھی کرواتے ہیں۔

تیسری خصوصیت : عوامی رابطے اور عینی مشاھدات ۔ کسی مسئلہ پر دقیق نظر دینے کے لیے ضروری ہے آپ قریب سے معاملات کو دیکھیں اور میدان میں رہیں اور لوگوں سے آپ کا تعلق رہے اور عینی مشاھدات کے ذریعے سے ملنے والی انفارمیشن کی بنیاد پر آپ دقیق اور کامل نظر دے سکتے ہیں اور اگر ہم رہبر معظم کی زندگی کو دیکھیں تو جنگ کے میدان سے لے کر حکومتی ادارے اور علمی میدان سے لے کر عوامی رابطے شاید کسی لیڈر کے پاس اس قدر جامع و کامل عینی مشاھدات کا تجربہ ہو جو رہبر معظم کے پاس ہے یہاں تک رہبر معظم سے ایک سوال کیا گیا کہ کس طرح سے عوام سے اپنا رابطہ رکھتے ہیں ؟؟ رھبر معظم نے جواب دیا میں کئی راستوں سے رسمی طور پر اور غیر رسمی طور پرعوام سے رابظے میں رہتا ہوں ایک روش یہی خطوط ہیں جو مجھ تک موصول ہوتی ہیں اور جو گزارشات مجھے دی جاتی ہیں وہ کئی طرح کی ہوتی ہیں صرف ایک گزارش نہیں ہوتی۔ معاشرے کے مختلف طبقات سے میری ملاقاتیں بھی رہتی ہیں اور اس ذریعے سے میں لوگوں سے رابطے میں رہتا ہوں۔

یہاں پر ایک دلچسپ بات یہ ہے رہبر معظم فرماتے ہیں کہ معاملات کی تحلیل میں میرے پاس ایک سورس آف انفورمیشن خود دشمن ہے کہ دشمن اس مسئلہ کو کس نگاہ سے دیکھ رہا ہے-

اور آخری بات منبع وحی سے رابطہ اور اھلبیت علیھم السلام سے توسل جس کا مشاھدہ ہم نے ایران میں ۸۸ کے فتنوں میں اور بہت سی دیگر تقریروں میں دیکھا ہے بالخصوص امام زمانہ عج اللہ تعالی فرجہ الشریف کی بارگاہ میں درد دل کا بیان کرنا اور ان سے استمداد طلب کرنا ہے۔یا پھر ایام فاطمیہ سلام اللہ علہیا میں بی بی دو عالم کے لیے کے لیے عزاداری برپا کرنا۔

خداوند متعال رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا سایہ ہمارے سروں پر قائم اور دائم رکھے اور ان سے بغض رکھنے والے اور ان سے دشمنی رکھنے والے تمام اشرار کو اگر ہدایت کے قابل ہیں تو ہدایت دے ورنہ نیست و نابود کرے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .