تحریر: نواب علی اختر
حوزہ نیوز ایجنسی | مشہد، (ایران):اسلامی جمہوریہ ایران کا دوسرا بڑا شہر مشہد کئی لحاظ سے تاریخی، مثالی اور قابل تقلید ہے۔ یہاں شیعہ مسلک کے 8 ویں امام حضرت علی رضا کا روضہ ہے جسے حرم کہا جاتا ہے اور اس وجہ سے مشہد کو مقدس کا شرف ہے۔ مشہد مقدس اور قم ایران کے دو ایسے شہر ہیں جو دنیائے شیعت میں مکہ، مدینہ، نجف اشرف اور کربلا کے بعد اہم ترین مذہبی مقام کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
مشہد ایران کی راجدھانی تہران سے تقریباً 900 کلو میٹر شمال مشرق میں واقع ہے۔ تقریباً 48 لاکھ 68 ہزارنفوس پر مشتمل یہ شہر شمال مشرقی صوبہ خراسان کا صدر مقام ہے جو مذہبی مقام کے ساتھ ہی سیاحت کیلئے بھی مشہور ہے۔ اس شہر کی آب و ہوا انتہائی خوشگوار ہے، سردیوں میں یہ خوبصورت نظارہ پیش کرتا ہے۔ اس شہر کی ایک خاص بات جو دنیا میں کہیں پر بھی دیکھنے میں نہیں آتی وہ یہ کہ یہاں پر بعض زمین کسی کی ملکیت میں نہیں ہے، بلکہ حضرت امام علی رضاؑ کے نام وقف ہے۔ یہاں کے ہوٹلوں اور کرایہ داروں ، مسافر خانوں کی آمدنی امام رضا کے نام وقف کرادی جاتی ہیں۔ یہ شہر دنیا بھرکے مسلمانوں بالخصوص شیعوں کے لیے حرم کا درجہ رکھتا ہے ۔امام رضا کا روضہ مبارک عقیدت سے وابستہ ایک اہم مرکز ہے اور یہاں صدیوں سے سال بھر ساری دنیا سے آنےوالے زائرین کا ایک تانتا بندھا رہتا ہے۔ ایک سرکاری اندازے کے مطابق یہاں سالانہ 35 کروڑ افراد زیارت کےلئے آتے ہیں۔ یہاں آنے والا ہر زائر روضہ مبارک کے خوبصورت فن تعمیر، بلند بالا دروازے، دیواروں ،کمانوں ، گنبدوں پر بہترین نقش ونگار ،گل بوٹے دیکھ کر مبہوت ہوکر رہ جاتا ہے۔ حرم امام میں ہر وقت زائرین کا اتنا اژدھام ہوتا ہے کہ کاندھے سے کاندھا چھلتا ہے ،یہاں خود سے چلنے کی ضرورت نہیں لوگ خود آپ کو چلائیں گے۔
مشہد میں حرم اور اس کے اطراف میں کبھی رات نہیں ہوتی۔ زائرین قافلے در قافلے کی شکل میں صبح تاشام عبادت و ریاضت میں مصروف نظرآتے ہیں۔ آس پاس کے بازار رات بھر کھلے اور جگمگاتے رہتے ہیں اور خریداری کرنے والے زائرین اور سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے۔ مشہد مقدس میں امامِ رضا کے روضے کی صدیوں پرانی اور طویل تاریخ ہے۔ یہ ایک وسیع و عریض احاطہ ہے جس کی توسیع اور آرائش کا کام ہر دور حکومت میں ہوتا رہا ہے اور اب بھی جاری ہے۔حرم کا کافی حصہ زیر مرمت یا زیرتوسیع ہے۔ مگر تعمیر کا کام اس طرح ہوتا ہے کہ نہ تو میٹیریل سے ماحول آلودہ ہوتا ہے اور نہ ہی کھلے عام پھیلا دکھائی دیتا ہے۔ تعمیراتی کام سے زیارت یا عبادت میں ذرا بھی خلل نہیں ہوتا۔ حرم امام کے ارد گرد سینکڑوں کی تعداد میں ہوٹل اور مہمان خانے ہیں جن میں 50 ہزار زائرین بیک وقت قیام کر سکتے ہیں مگر سال بھر یہاں گنجائش سے زائد زائرین مقیم ہوتے ہیں۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے گزشتہ 12 صدیوں کے دوران حرم مطہر تقریبا 12 ایکڑ پر محیط تھا لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد زائرین کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا جس کو دیکھتے ہوئے آستان قدس رضوی نے اس کی توسیع کا منصوبہ بنایا اور اس پربڑی تیزی سے عمل درآمد جاری ہے۔ اس وقت حرم مطہر 90 ایکڑ سے زائد رقبے میں پھیلا ہوا ہے اس میں جہاں رواق کے ناموں سے 28 نئے ہال تعمیر کیے گئے ہیں وہیں 16 بڑے صحن بھی بنائے گئے ہیں اور ہرصحن میں پانچوں وقت باجماعت نماز ہوتی ہے۔ ہرنماز سے پہلے یہاں دی جانے والی اذان اتنی خوش لحن ہوتی ہے کہ حرم میں موجود ہرشخص اپنی جگہ پرساکت ہوکراسے سننے پرمجبور ہوجاتا ہے۔ مرد نمازیوں کے ساتھ کچھ فاصلے پر ہی خواتین بھی باجماعت نماز ادا کررہی ہوتی ہیں۔
حرم مطہر میں داخلے کیلئے چار بڑے صدر دروازے ہیں جن کو بست کا نام دیا گیا ہے اور پھر زائرین کی سہولت کےلئے کئی دروازے بنائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ امام رضا علیہ السلام کے زائرین کو ایک وقت کا کھانا تبرک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو دنیا بھر میں ’دسترخوان امام رضا ‘ سے مشہور ہے۔ اس دسترخوان میں شامل ہونے کےلئے زائرین کئی روز تک انتظار بھی کرتے ہیں حالانکہ اس سب کو منظم رکھنے کےلئے حرم کا سرپرست ادارہ ’آستان قدس رضوی‘ کا ایک باقاعدہ طریقہ ہے جس کے تحت دسترخوان کےلئے ہر روز تین ہزار ٹوکن جاری کئے جاتے ہیں اس کیلئے زائرین کوکئی روز انتظار بھی کرنا پڑتا ہے ۔ دستر خوان کا شرف حاصل کرنے والے زائرین اپنی قسمت پرناز کرتے اور وہاں موجود خدام اور ذمہ دارافراد کا نم آنکھوں سے شکریہ ادا کرتے نظرآتے ہیں۔
آستان قدس رضوی کی جانب سے مشہد میں زائرین کی سہولت کے لیے بڑی تعداد میں ہوٹل اور مسافر خانے بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ زائرین کی ایک بڑی تعداد کے پیش نظر تہران سے ہر روز درجنوں ٹرینیں اور ہوائی جہاز مشہد آتے ہیں۔