۲۰ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱ ذیقعدهٔ ۱۴۴۵ | May 9, 2024
غزہ

حوزہ/ فلسطینی مزاحمت کاروں اور صہیونی فوج کے درمیان 47 روز تک جاری رہنے کے بعد تل ابیب کی کابینہ نے آج صبح غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے پر اتفاق کیا، امریکی حکومت کے حکام نے اس معاملے میں قطر اور مصر کی ثالثی کا شکریہ ادا کیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آج صبح 22 نومبر بروز بدھ صیہونی حکومت کے خلاف اسلامی مزاحمتی تحریک "حماس" کی جانب سے " طوفان الاقصی " آپریشن کے آغاز کو 47 دن گزرنے اور غزہ کی پٹی پر زمینی حملے میں صہیونیوں کی شکست کے بعد، ظالم صہیونی حکومت کی کابینہ نے قطر اور مصر کی کی ثالثی سے جنگ بندی کا سہارا لینا پڑا۔

خبر رساں ایجنسی "روئٹرز" نے صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر کا حوالہ دیتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ حکومت نے اس معاہدے کے حق میں ووٹ دیا ہے جس میں غزہ کے بعض قیدیوں کی رہائی کی ضمانت دی گئی ہے، خواتین اور بچوں سمیت 50 یرغمالیوں کو 4 دن کے اندر رہا کر دیا جائے گا اور اس دوران جھڑپیں بند رہیں گی ۔

خبررساں ایجنسی "الجزیرہ" کے رپورٹر نے اس بارے میں اطلاع دیتے ہوئے کہا:مذہبی صہیونی پارٹی سے تعلق رکھنے والے 3 وزراء کو چھوڑ کر اسرائیلی کابینہ کے تمام وزراء نے قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کی حمایت کی۔

روئٹرز کی خبر کے بعد اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے ایک بیان جاری کیا اور کہا: مشکل، پیچیدہ اور طویل مذاکرات کے بعد، ہم اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور قطری اور مصری فریقین کی بھرپور کوششوں سے ہم 4 دن کے لیے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی [عارضی جنگ بندی] کے معاہدے پر پہنچ گئے ہیں۔

حماس نے مزید کہا:اس دوران دونوں طرف سے حملے، غزہ کے تمام علاقوں میں صیہونی حکومت کی فوج کی عسکری سرگرمیاں، نیز غزہ میں اس حکومت کی بکتر بند گاڑیوں کی نقل و حرکت بند کر دی جائے گی۔

اس معاہدے کے مطابق انسانی امداد، طبی امداد اور ایندھن لے جانے والے سینکڑوں خصوصی ٹرک بغیر کسی استثناء کے غزہ کے تمام علاقوں میں داخل ہوں گے۔

اس معاہدے کے مطابق اسیری کے ریکارڈ کی بنیاد پر 150 فلسطینی خواتین اور 19 سال سے کم عمر کے بچوں کے مقابلے میں 50 اسرائیلی خواتین اور 19 سال سے کم عمر کے بچوں کو رہا کیا جائے گا۔

صیہونی حکومت کے جنگجوؤں اور طیاروں کے حملے اور پروازیں چار روزہ جنگ بندی کے دوران جنوبی غزہ اور شمالی غزہ میں صبح 10 بجے سے شام 4 بجے تک 6 گھنٹے کے لیے بند رہیں گی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .