۲ آبان ۱۴۰۳ |۱۹ ربیع‌الثانی ۱۴۴۶ | Oct 23, 2024
شہید اسماعیل ہنیہ

حوزہ/شہید اسماعیل ہنیہ کی مجاہدانہ اور سیاسی شخصیت پر ایک نظر ڈال کر دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی سیاسی اور مجاہدانہ زندگی کا آغاز کہاں سے اور کن شخصیات سے الہام لیتے ہوئے کیا؟

حوزہ نیوز ایجنسی| فلسطینی مزاحمتی شخصیات میں سے ایک شیخ احمد یاسین ہیں، شیخ احمد یاسین کا اسماعیل ہنیہ کی انقلابی ذہانت پر اعتماد، فلسطینی عوام کی جدوجہد کی تاریخ میں ایک بہت بڑا باب تھا، لیکن مکتب شیخ احمد یاسین کے شاگرد اسماعیل ہنیہ جلد ہی اپنے استاد سے جا ملے۔

کہتے ہیں کہ جب دو ستارے آپس میں ٹکرائے تو روشنی اور توانائی کا دھماکہ ہوتا ہے، یہ وہی تعبیر ہو سکتی ہے جس کو انقلابی اور مذہبی شخصیات کی رفاقت کے بارے میں درست سمجھا جائے۔ شیخ احمد یاسین اور اسماعیل ہنیہ کی رفاقت کا قصہ بھی کچھ ایسا ہی ہے: جب شیخ احمد یاسین کی عمر صرف دس سال تھی تو انہیں اور ان کے خاندان کو فلسطین کے گاؤں جورہ سے زبردستی نکالا گیا۔ 12 سال کی عمر میں وہ ایک حادثے میں اپنی جسمانی قوت اور بینائی سے محروم ہو گئے اور وہیل چیئر پر بیٹھنے لگے، لیکن اس حالت میں بھی انہوں نے عربی ادب کے استاد اور ایک مذہبی اور روحانی پیشوا کے طور پر کیمپ میں مشکل حالات میں رہنے والے بہت سے نوجوانوں اور جوانوں پر اثر ڈالا اور شیخ احمد کے مکتب سے فیضیاب ہونے والے بہت سے طلباء نے جدوجہد کی راہ پر قدم رکھا، لیکن ان کے مکتب میں پروان چڑھنے والے سب سے مشہور ستاروں میں سے ایک ستارہ اسماعیل ہنیہ تھے، اگرچہ استاد اور طالب علم کے درمیان؛ عمر میں صرف دس سال کا فرق تھا، لیکن اسماعیل ہنیہ شیخ کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ صرف ایک مذہبی اور انقلابی مکتب میں ہی اتنا قیمتی اخلاقی نمونہ وجود میں آ سکتا ہے۔ شیخ احمد یاسین کا اسماعیل ہنیہ پر مکمل اعتماد نے انہیں نہ صرف شیخ کا شاگرد اور تابعدار بنا دیا، بلکہ انہیں حماس کی مزاحمتی مہم کی تشکیل اور اس کی ظاہری اور باطنی شاخوں کی قیادت کرنے میں ان کا معتمد اور مشیر بھی بنا دیا۔

اسماعیل ہنیہ نے شیخ یاسین سے کیا سیکھا؟

اسلامی اور مذہبی اخلاقیات اور ظلم کے خلاف لڑنے کے طریقوں کا امتزاج وہ مؤثر دوا تھا جو شیخ نے فلسطینی جوانوں کو پیش کیا۔ اسماعیل ہنیہ نے 1994ء میں رائٹرز کے ایک رپورٹر کو بتایا تھا: شیخ یاسین فلسطینی جوانوں کے لیے ایک نمونۂ عمل ہیں۔ ہمارے جوانوں نے ان سے اسلام سے محبت کرنا، اس کے لیے قربانی دینا اور ظالموں کے سامنے کبھی نہیں جھکنا سیکھا ہے۔

جب اسماعیل ہنیہ جدوجہد کی تمام سطح پر نمایاں اور ان کے فولاد جیسے انقلابی تجربات سے پردہ اٹھنے لگے تو انہیں شیخ یاسین کے ساتھ ایک سینئر رہنما اور دفتر کے سربراہ کے طور پر رکھا گیا اور عملی طور پر تمام فیصلوں میں شیخ کے مددگار بنیں۔

موساد کی جاسوسی ایجنسی کے اعلیٰ افسران کو بہت جلد احساس ہو گیا کہ یاسین اور اسماعیل کی وابستگی سے فلسطینی جوانوں اور مزاحمتی تنظیموں پر کس قدر اثر ہوا ہے، لہٰذا 2003ء میں، ایک دہشت گردانہ کارروائی میں، غاصب دشمن نے استاد اور شاگرد کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن شیخ یاسین اور اسماعیل ہنیہ زندہ رہیں۔ بہر حال دشمن ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھے رہے اور آخر کار شیخ یاسین کو شہید کرنے میں کامیاب ہوئے۔ شیخ یاسین کی شہادت کے بعد، اسماعیل ہنیہ پر انقلابی ذمہ داریوں اور اداری امور کا بوجھ بڑھ گیا، لیکن وہ اپنے کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے اور حماس کے تمام امور میں ایک اہم شخصیت کے طور پر منظر عام پر ابھر گئے۔

شاگرد کی استاد پر سبقت

تحریکِ حماس کی سیاسی فضا میں کردار ادا کرنے کی ضرورت کا خیال اسماعیل ہنیہ کے اہم ترین انقلابی افکار اور پروگراموں میں سے ایک رہا ہے۔ شیخ یاسین کے بہت سے دوسرے فلسطینی مجاہدین معتقد تھے کہ حماس کو مسلح جدوجہد کے میدان میں موجود رہنا چاہیے اور اپنی تمام توانائیوں کو اسی میدان میں صرف کرنا چاہیے، لیکن اسماعیل ہنیہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مجاہدانہ سرگرمیاں اور انقلابی کام ہمہ جہت ہونے چاہییں اور وسیع اور انتھک مسلح سرگرمی کے علاؤہ اس میں تمام سیاسی، علمی، ثقافتی اور اقتصادی شعبوں کو بھی شامل ہونا چاہیے اور خود کو تمام حکومتی اور خدمت رسانی کے شعبوں میں موجود ہونا چاہیے اور تربیت حاصل کریں، اسی وجہ سے جب غزہ یونیورسٹی کے چانسلر کا عہدہ اسماعیل ہنیہ کے پاس تھا تو انہوں نے وقت کی روح کی خصوصیات کی بنیاد پر علمی، منجمنٹ، اجرائی اور طلباء کی تربیتی امور پر زور دیا، گویا انہوں نے مکمل طور پر یونیورسٹی کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔

اس سال جب محمود عباس اور فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ کی قیادت میں تحریکِ فتح میں اور مختلف مزاحمتی گروہوں کی صفوں کے درمیان بہت سے اختلافات وجود میں آئے، جو حتیٰ کہ تناؤ اور آمنے سامنے تصادم کا باعث بنے، اسماعیل ہنیہ نے پھر سے شیخ یاسین کی تعلیمات کی بنیاد پر فلسطینی گروہوں کے اتحاد کو ایک اعلیٰ آئیڈیل کے طور پر برقرار رکھا، لیکن یہ خصوصیت دیگر فلسطینی گروہوں کے خلاف اسماعیل ہنیہ اور ان کے ساتھیوں کی برتری کا واحد ہتھیار نہیں تھی، بلکہ حماس کی مختلف صفوں کی سب سے اہم خصوصیت، جہاد کا نمایاں عزم، صیہونی جاسوسوں کے اثر و رسوخ کے مقابلے میں، پاکیزگی اور مالی بدعنوانی اور میدان جنگ میں ہوشیاری تھی اور حکومتی اور اجرائی امور میں بھی ہوشیاری تھی، اس کے نتیجے میں، خود حکومت کرنے والی تنظیموں میں مالی بدعنوانی اور مختلف قسم کے دیگر ایشوز کے بارے میں بہت سی باتیں ہوئیں، لیکن جن شعبوں میں حماس اور اسماعیل ہنیہ جیسے مجاہدین موجود تھے، وہاں پر معاملات میں شفافیت اپنے عروج پر تھی، خاص طور پر غزہ شہر میں، جو کہ بغیر چھت کے دنیا کی سب سے بڑی جیل کے نام سے جانا جاتا ہے، عام شہریوں، اہلکاروں اور کمانڈروں کے معیار زندگی میں کوئی طبقاتی نظام یا امتیاز نہیں تھا۔

شہید اسماعیل ہنیہ نے ان سالوں میں جب وہ شیخ یاسین کے ساتھ ایک سینئر رہنما اور دفتر کے سربراہ تھے، کافی تجربہ حاصل کیا تھا اور جدوجہد کے اصولوں کی وسیع اور گہری سمجھ بوجھ حاصل کی تھی اور صیہونیت کے مظالم کے مختلف پہلوؤں کو سمجھ لیا تھا، لیکن شیخ کی شہادت کے بعد، اسماعیل ہنیہ نے اپنی انقلابی اور مجاہدانہ شخصیت اور اپنے ہم خیال اور ساتھیوں کی مجاہدانہ شخصیت کی تربیت میں نمایاں پیشرفت کی تھی اور حماس کے سیاسی، علاقائی اور بین الاقوامی اثرات کا بڑا حصہ اور سیاسی آئیڈیل کے ادراک کی راہ میں جنگی اور فوجی فتح کے استعمال کے بارے میں گہری بصیرت کا حصول، فلسطینی تاریخ کے اس عظیم شہید کی وراثت میں شامل ہیں۔

اسماعیل ہنیہ شہادت کے لیے ہمہ وقت تیار تھے

اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ شہید اسماعیل ہنیہ نے 2022ء میں الجزیرہ نیٹ ورک قطر کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا: حماس کی نظر سے فلسطینی جدوجہد کا ایک واضح نقطۂ نظر اور افق ہے اور اس کے تمام مراحل کو درست طریقے سے منصوبے میں شامل کیا گیا ہے اور آزادی کے منصوبے کی تکمیل، پناہ گزینوں کی واپسی اور قابضین کو فلسطینی سرزمین سے بے دخل کرنے کے لیے متعدد شعبوں میں ہم آہنگی اور بیک وقت کام ہونا چاہیے اور ان تمام امور کا حصول، مسلح جدوجہد پر منحصر ہے۔ شہید اسماعیل ہنیہ نے اسی انٹرویو میں ہی اپنے مشن کے بارے میں اور دینی اور انقلابی مؤقف کے ساتھ کہا تھا کہ فلسطین وہ سرزمین ہے جہاں شہیدوں، بزرگوں، ہیروز، مرد و خواتین قیدیوں کے خون کی ندیاں بہائی گئی ہیں۔ ہمیں اپنی اہم ذمہ داریوں کا احساس ہوتا ہے، ان اہم ذمہ داریوں کی قیمت ہے اور ہم ان قیمتوں کو چکانے کے لیے تیار ہیں اور ہم فلسطین کی آزادی کی راہ میں شہید ہونے کو اعزاز سمجھتے ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .