حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی 36 ویں برسی کی مناسبت سے، جامعہ روحانیت خیبر پختونخوا کے تحت قم المقدسہ کی عظیم دینی درسگاہ دار الشفاء کے کانفرنس ہال میں ایک عظیم الشان تقریب کا انعقاد ہوا، جس میں علمائے کرام اور طلباء نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ قرآن مجید سے ہوا جس کی سعادت قاری برادر شوکت علی مطہری نے حاصل کی۔ معروف منقبت خواں جناب مرتضٰی نگری اور اکمل حسین نے شہادت کا ترانہ، جبکہ شاعر اہل بیت جناب ثاقب نے شہید علامہ عارف حسین الحسینی اور شہدائے مقاومت بالخصوص شہدائے پارا چنار کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
نظامت کے فرائض جناب نجم الحسن نے سر انجام دیئے۔
حجت الاسلام سید کمال حسینی نے پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چالیس سال تک اسلام کی خدمت کرنے والی شخصیت علامہ عارف حسین الحسینی کے بارے میں گفتگو کرنا آسان نہیں، شہید حقیقی معنوں میں شہدائے مقاومت کےلیے نمونۂ عمل تھے۔
انہوں نے امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا علامہ عارف الحسینی کی شہادت پر جاری تعزیتی پیغام کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آج انقلابِ اسلامی کے بانی حضرت امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے تعزیتی پیغام کو پڑھا جو کہ آج تک جاری کیے گئے پیغامات سے بڑا اور پرمغز ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ ہر کسی کو القابات سے نہیں نوازتے تھے، لیکن شہید علامہ عارف الحسینی کو بہت سے القابات سے نوازا ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین سید کمال حسینی نے علامہ عارف الحسینی کو معاشرے کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ عالم معاشرے کے لیے نمونہ اور اسوہ بن سکتا ہے جو معصومین کے فرامین کے مطابق اچھی خصوصیات کا حامل ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ علامہ عارف حسین الحسینی نے 42 سال زندگی کی، لیکن ان کی عمر بابرکت تھی، علامہ نے یہ عمر صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے وقف کر دی تھی۔
حجت الاسلام سید کمال حسینی نے معصومین علیہم السّلام کی حدیث کی رو سے بیان کیا کہ ہر علم و فضل کا دعویٰ کرنے والوں کے ساتھ نہ بیٹھیں، بلکہ ان علماء کے ساتھ بیٹھیں جو کئی خصوصیات کے حامل ہوں۔ مثلاً وہ علماء جو شک سے یقین کی جانب بلائیں، ہم نہیں کر سکتے ہیں کہنے والوں کو ہم کر سکتے ہیں کی وادی میں لائیں، ان کی واضح مثالیں ہمیں انقلابِ اسلامی میں ملتی ہیں، لہٰذا نمونۂ عمل بننے کے لیے پہلی شرط، شک سے نکل کر یقین کی منزل پر پہنچنا ہے، جو خود شک میں مبتلا ہو وہ قیادت نہیں کر سکتا، شہید عارف الحسینی یقین کی منزل پر فائز تھے۔
انہوں نے کسی بھی عالم کا معاشرے میں نمونۂ عمل بننے کی دوسری شرط بیان کرتے ہوئے کہا کہ نمونۂ عمل بننے کی دوسری شرط، اخلاص کا پیکر ہونا اور ریاکاری سے پاک ہونا ہے جو عالم مخلص ہوگا وہ قیادت کر سکتا ہے۔ نمونۂ عمل بننے کے لیے دنیا کی خواہشات کو چھوڑ کر الٰہی زہد و تقویٰ اختیار کرنا ہوگا علامہ عارف حسین الحسینی میں یہ تمام خصوصیات موجود تھیں۔
انہوں نے شہید قائد کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے مزید کہا کہ وہ عالم معاشرے کے لیے نمونہ بن سکتا ہے جو امت کو تکبر کی وادی سے تواضع کی وادی کی طرف بلائے، یعنی خود بھی متواضع ہو اور امت کو بھی تواضع و انکساری کا درس دے اور امت کا خیر خواہ ہو۔ شہید امت کے خیر خواہ، متواضع اور بصیرت سے سرشار تھے۔
حجت الاسلام کمال حسینی نے مزید کہا کہ علامہ عارف الحسینی وحدت کے علمدار تھے۔ آپ کہتے تھے کہ ہم اسلام کےلیے جدوجہد کر رہے ہیں، ہم اختلافات سے پاک اور دشمنانِ اسلام کے خلاف ایک اسلامی بلاک کو تشکیل دینا چاہتے ہیں۔
پروگرام کے دوسرے خطیب حجت الاسلام والمسلمین سید شباب شیرازی نے بھی شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کی علمی، سیاسی، اجتماعی اور دینی خدمات اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
پروگرام کے آخر میں جامعہ روحانیت خیبر پختونخوا کے صدر مولانا عادل حسن امینی نے اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی شہادت اور عالمی امن و امان خاص طور پر پارا چنار کے حوالے سے متفقہ قرارداد پیش کی۔