علامہ امین شہیدی کے آفیشل فیس بُک پیچ سے ماخوذ
بات تو سچ ہے مگر
بات ہے رسوائی کی
عوامی عقیدت سے کھیلنے والے بے عمل، جاہل، سطحی اور ہلکے مولوی تسلسل سے مقدس الفاظ، القابات اور ناموں کے حوالے سے شبہات ہمارے عوام کے اذہان میں ڈال رہے ہیں۔
ہم لوگ اپنے گھروں پر لگے علم کو حضرت عباس کا علم کہتے ہیں، کوئی نہیں کہتا کہ یہ کربلا والے علم کے مقابلے یا اس کے برابر لانے کی کوشش ہے۔
پاکستان میں عوام نے کربلا گامے شاہ کے نام سے امام بارگاہ بنائے، کسی کے ذہن میں سوال نہیں اٹھا کہ یہ کربلا گامے شاہ، کربلائے معلٰی کے مقابلے یا رتبہ میں اس کے برابر ہے۔
ہم نے 8 محرم کو سقائے سکینہ سلام اللہ علیہا کے نام سے چھوٹے چھوٹے بچوں کو سقا بنایا، انکے ہاتھ میں مشکیزہ پکڑایا کسی نے نہیں کہا یہ نعوذ باللہ مولا عباس علیہ السّلام کے برابر لے آئے۔
ہم نے علمدار بنا لئے، ضریح بنالی، بین الحرمین بنا لئے، کسی کے ذہن میں شبہہ نہیں اٹھا کہ یہ اصل کے مقابلے میں بنایا گیا ہے، کیونکہ سب واضح تھا کہ یہ اصل کے مقابلے میں نہیں بلکہ اس کے ذیل میں اور اس اصل کی محبت میں ہی بنائی گئی شبیہ ہیں، لیکن بات جیسے ہی مرجعیت کے حسینی کردار اور حسینی مجاہدت کی آئی تو بے عمل مولویوں نے اپنی جان بچانے اور اپنی سستی، کاہلی، بے عملی اور میدان سے دوری پر پردہ ڈالنے کیلئے شبھات ایجاد کرنے شروع کردئیے کہ حسین(ع) بس ایک ہی ہیں، کربلا بس ایک ہی ہے، یزید بس ایک ہی ہے۔
رہبر معظم جنہوں نے امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو زمانے کے حسین کا لقب دیا، حسن نصر اللہ جیسے مجاہد، عالم اور اہل بیت علیہم السّلام کے خدمت گزار نے رہبرِ انقلابِ اسلامی کو زمانے کے حسین کہا، گویا ان کا علم، شعور، عقیدت، محبت اور بصیرت نعوذباللہ ان پاکستانی غیر سیاسی، بے عمل اور عافیت طلب مولویوں سے بھی کم ہے کہ ان کو سمجھ نہیں آرہا کہ امام حُسین علیہ السّلام ایک ہی ہیں اور کربلا ایک ہی ہے۔
ہم علی علیہ السلام کو ید اللہ کہتے ہیں تو اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ خدا کے ہاتھ ہیں بلکہ اس سے مراد ان کی طاقت اور قدرت ہے، جب علی علیہ السلام کی طاقت و قدرت کی شدت بتانا مقصود ہوتا ہے تو اس وقت دنیا کی کسی طاقت اور قدرت کو اس قابل نہیں پاتے کہ علی علیہ السّلام کی طاقت و قدرت کو اس کی مدد سے سمجھا سکے اور نہ ہی یہ مقصد ہوتا ہے کہ اللہ کی قدرت سے علی علیہ السّلام کی قدرت کا موازنہ یا نعوذ باللہ علی علیہ السّلام کو خدا کے برابر لا سکیں، لہذا ہم علی علیہ السّلام سے بڑی طاقت اور قدرت کا سہارا لیتے ہیں جو اللہ تعالٰی کی قدرت اور طاقت ہے اور اس طاقت سے علی علیہ السّلام کی طاقت کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، اسی طرح جب زمین پر فلسطین، یمن یا کسی اور کی مظلومیت کو بیان کرنا ہوتا ہے تو اس سے بڑی مظلومیت کا سہارا لیا جاتا ہے، تاکہ مظلومیت کی شدت کو بیان کر سکیں، نہ کہ کربلا کی مظلومیت سے مقایسہ کر سکیں۔
یہ بات عوام فطری طور پر سمجھتے ہیں کہ شرپسند عافیت طلب مولوی اپنی جان بچانے کیلئے اور زمانہ غیبت کے رول ماڈلز علماء اور مجاہدین کو خراب کرنے کیلئے یہ شبہہ عوام کے ذہن میں ابھار رہے ہیں۔
ان عالم نماؤں کو اپنے نام کے ساتھ آئمہ طاہرین علیہم السّلام کے القابات لگنے سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی، لیکن جیسے ہی انقلابِ اسلامی یا انقلاب سے مربوط کسی شخصیت، تنظیم یا نظریہ کی بات آتی ہے تو یہ طبقہ، ہائے اسلام اور ہائے عزاداری اور ہائے کربلا کی آوازیں بلند کرنا شروع کر دیتا ہے۔
یہ حوزہ علمیہ (دینی مدارس) کے وہ زہریلے افراد ہیں جن کو امام امت خمینی بت شکن رحمۃ اللّٰہ علیہ نے خوبصورت علمی سانپوں سے تعبیر فرمایا ہے اور جوانوں کو ان کے شر سے بچنے کی نصیحت فرمائی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے تنظیمی، انقلابی اور ولائی افراد ان کے پروپیگنڈے کے اثر میں آ رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ فکری اور نظریاتی طور پر بنیادیں اب ویسی مضبوط نہیں رہیں جیسا ہوا کرتی تھیں۔