حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امت واحدہ پاکستان کے سربراہ اور معروف عالم دین علامہ محمد امین شہیدی نے ایرانی صدر حجت الاسلام والمسلمین سید ابراہیم رئیسی کے دورۂ پاکستان کو مثبت اور خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صدرِ ایران دو دن کے دورے کے بعد تیسرے روز سری لنکا روانہ ہوگئے، اگرچہ دو دن اس سفر کے لحاظ سے بہت کم تھے، لیکن انہوں نے 2 دنوں کے کم وقت سے زیادہ سے استفادہ کیا۔
علامہ امین شہیدی نے کہا کہ عسکری وسیاسی قیادت سے ملاقاتیں اور مختلف اداروں کے دورے سے دونوں ممالک کے تعلقات پر گہرے اور مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ایران کے غاصب اسرائیل پر تاریخی حملہ کے بعد پاکستان کے جوان بزرگ بچے یہ سب چاہتے تھے کہ صدر رئیسی کو قریب سے دیکھیں سنیں اور اپنے جزبات کا اظہار کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں یہ شاندار روایت رہی ہے کہ جب بھی سربراہانِ مملکت پاکستان کے دورے پر آتے تو کم از کم لاہور کی سطح پر عوامی خطاب ہوتا۔ رہبر معظم آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای جب صدرِ ایران تھے تو وہ ضیاء الحق کا دور تھا ان کا پاکستان میں تاریخی اور پرتپاک استقبال اور عوامی اجتماع ہوا تھا۔ صدر خاتمی نے مشرف دور میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا، صدر روحانی جب دورہ پاکستان پر آئے تو راحیل شریف کا دورہ تھا کلبشھن یادیو کا معاملہ اٹھا کر امریکی غلامی کا عملی ثبوت دیا گیا ۔صدر ایران ڈاکٹر رئیسی کے حالیہ دورے کے دوران پاکستان کی حکومت امریکی سامراج کے دباؤ میں تھی، اس کے باوجود یہ کامیاب اور شاندار دورہ رہا۔ ہم پر امید ہیں کہ جن معاہدوں پر دستخط کئے گئے ہیں ان پر سنجیدگی سے عملدرآمد بھی کیا جائے گا۔
علامہ محمد امین شہیدی کا کہنا تھا کہ صدرِ ایران کے حالیہ دورے سے امریکہ نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ امریکی سامراج کے علاؤہ اُن کے دسترخوان کی ہڈیاں چبانے والوں کو بھی تکلیف لاحق تھی۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور یہ ایک اسلامی جمہوریہ ملک ہے۔ ہمارے ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کو آزاد رہنا چاہئے، الحمدللہ وقت یہ ثابت کر رہا ہے کہ امریکی اور غاصب صہیونی سامراج اپنے سامنے سر جھکانے والوں کا سر کچل دیتے ہیں۔ امریکیوں کے سامنے جھکنا پاکستان میں مسائل کا حل اور نجات نہیں، بلکہ اپنے ملک کے مفادات کو ترجیح دینا ہی پاکستان کیلئے سب سے اہم اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔
علامہ محمد امین شہیدی نے صدرِ ایران کے بعد امریکی وزیر کے ردعمل پر ایک سوال کے جواب میں کہا کہ امریکیوں کو اپنی حدود میں رہنا چاہیئے، پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے، ہمیں اپنی خارجہ پالیسی میں آزاد اور اپنے فیصلوں میں خودمختار ہونا چاہیئے۔ امریکی بیانیہ کوڑے دان میں پھینکا چاہئے۔ امریکہ کسی صورت کسی بھی ملک کو دباؤ میں لاکر یہ نہیں کہہ سکتا کہ ایران سے گیس اور تیل نہیں لے سکتا تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دباؤ میں کیوں لایا جاتا ہے۔ ہم امریکیوں کے غلام نہیں۔پاکستان کو آزاد خارجہ پالیسی کا اظہار کرنا چاہیئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ امریکیوں کی غلامی سے بڑھ کر کوئی ذلت نہیں۔