۲۷ مهر ۱۴۰۳ |۱۴ ربیع‌الثانی ۱۴۴۶ | Oct 18, 2024
طوفان الاقصی

حوزہ/ بین الاقوامی عاشوراء فاؤنڈیشن اور حوزہ علمیہ کے لینگویج سنٹر کی جانب سے طوفان الاقصٰی کی پہلی سالگرہ اور سید مقاومت، سید شہید حسن نصر اللہ کی شہادت کی مناسبت سے "راہ نصر اللہ" کے عنوان سے ایک آنلائن ویبینار منعقد ہوا، جس میں کئی اہم سوالات اٹھائے گئے، جن کے جوابات قارئین کی خدمت میں سلسلہ وار پیش کیے جائیں گے۔

حوزہ نیوز ایجنسی؛ بین الاقوامی عاشوراء فاؤنڈیشن اور حوزہ علمیہ کے لینگویج سنٹر کی جانب سے طوفان الاقصٰی کی پہلی سالگرہ اور سید مقاومت، سید شہید حسن نصر اللہ کی شہادت کی مناسبت سے "راہ نصر اللہ" کے عنوان سے ایک آنلائن ویبینار منعقد ہوا جس میں کئی اہم سوالات اٹھائے گئے جن کے جوابات قارئین کی خدمت میں سلسلہ وار پیش کیے جائیں گے۔

پہلی قسط

پروگرام کے شروع میں استقبالیہ خطبہ دیتے ہوئے مولانا شیخ اشرف سراج نے طوفان الاقصٰی کے بارے میں اٹھائے جانے والے اہم سوالات پر روشنی ڈالی۔

سوال: حماس نے طوفان الاقصٰی آپریشن کر کے ایک بڑی جنگ کا آغاز کیوں کیا؟

جواب: اس طرح کے سوالات ایسے افراد اٹھاتے ہیں کہ جو مسئلہ فلسطین کی اہمیت اور نوعیت کو نہیں سمجھتے ہیں یا ان کی نگاہ میں غاصب اور مظلوم دونوں برابر ہیں۔

ہم اگر تفصیل کے ساتھ اس سوال کا جواب جاننا چاہیں گے تو ہمارے لیے بہت سے اسباب و علل ملیں گے کہ جن کی وجہ سے حماس کو طوفان الاقصٰی آپریشن کرنا پڑا۔

ہماری نگاہ میں طوفان الاقصٰی آپریشن کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ مسئلہ فلسطین جو کہ دہائیوں سے چلتا آرہا تھا وہ بالکل مدّھم ہوچکا تھا، عرب حکمران، فلسطین کے مسئلے کو پس پشت ڈال کر اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے جارہے تھے، جو اسرائیل کو رسمیت دینے کےلئے ایک بنیادی عمل تھا، صدی کی ڈیل کا فارمولہ اور پھر گریٹر اسرائیل نے اسی بنیاد پر پروان چڑھنا تھا۔

ایسے عالم میں حماس اگر طوفان الاقصٰی آپریشن نہ کرتی تو اسرائیل نہ صرف ایک رسمی ملک بن جاتا، بلکہ ایک وسیع و عریض ملک بننے جارہا تھا۔

اس کے بعد فلسطینی، اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑے ہو جاتے تو بہت سے عرب حکمران جو آج بالکل خاموشی تماشائی بنے ہوئے ہیں وہ اسرائیل کی کمان سے خود مظلوم فلسطینوں کے خلاف لڑتے پھر حماس کو ایک غاصب اور خونخوار درندہ صفت گروہ کے مقابلے میں لڑنے کے بجائے مسلمانوں سے لڑنا پڑتا۔

لہٰذا حماس مجبور تھی کہ مسئلہ فلسطین کی اہمیت کو اقوام عالم ،مخصوصاً مسلم امہ پر واضح کرے اور اسے اجاگر کرنے کےلئے کوئی اقدام اٹھائے، وہی اقدام حماس نے طوفان الاقصٰی کی شکل میں اٹھایا جو کہ ایک عمدہ اور مؤثر ترین اقدام تھا۔

اس آپریشن کی اہمیت کا اندازہ ہم یہاں سے بھی لگا سکتے ہیں کہ آج اسرائیل سمیت امریکہ، برطانیہ اور ان کے تمام اتحادیوں کی ظالمانہ پالیسیوں سے دنیا باخبر ہوئی ہے اور خود امریکہ، برطانیہ اور تمام یورپی ممالک کی عوام اسرائیل کے ظالمانہ اقدامات کے خلاف سڑکوں پر آئے ہیں، اسی لیے اس آپریشن کی اہمیت کو دیکھ کر شہید راہ مقاومت، سید حسن نصر اللہ نے حماس کی اس عظیم تحریک کی سب سے پہلے حمایت کردی اور قدس کی آزادی تک ساتھ نبھانے کا عہد کیا۔

شہید مقاومت خود نے یہ کہا تھا کہ ہم یا فتح حاصل کریں گے یا پھر کربلا برپا کریں گے۔

آج حزب اللہ اسی مشن پر قائم ہے ان شاءاللہ بہت ہی جلد مسلم امہ کو قدس کی آزادی کی نوید ملےگی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .