حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، فلسطینی مسائل کے ماہر سہیل کثیری نژاد نے "جہان آرا" نامی پروگرام میں محمد رضا باقری سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: صیہونی حکومت نے شہید سنوار کی زندگی کے آخری لمحات کی ویڈیو کو اپنے داخلی استعمال کے لیے شائع کیا ہے، لیکن صیہونیوں کی "مزاحمت" کی تعریف وہ نہیں جو حماس اور دیگر مزاحمتی گروہوں کی ہے۔ ان کے نزدیک مزاحمت ایک فکری اور نظریاتی قلعہ ہے جس کے قائد تاریخ میں ہمیشہ شہید ہوئے ہیں، اور اسی جذبے سے انہوں نے سخت حالات میں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
کثیری نژاد نے مزید کہا کہ اسرائیلی حکومت مزاحمتی گروہوں اور ان کے رہنماؤں سے گہری واقفیت رکھتی ہے اور اس کا برعکس بھی سچ ہے۔ سنوار سے پوچھ گچھ کرنے والے نے کہا کہ ہم گھنٹوں تک ان کا نفسیاتی تجزیہ کرتے تھے، لیکن بعد میں یہ سمجھ آتا کہ دراصل وہ ہم سے معلومات حاصل کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی داخلی صورتحال نہایت پیچیدہ ہے، یہاں تک کہ ممکن ہے چند سال بعد وہ وجود ہی نہ رکھے، صیہونی معاشرہ داخلی انتشار کا شکار ہے اور کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر پا رہا۔
کثیری نژاد نے انکشاف کیا کہ اسرائیل عراق پر بھی نظریں جمائے ہوئے تھا اور موساد مغربی نظریات کی حامل عراقی شخصیات سے روابط قائم کرنا چاہتا تھا تاکہ فلسطین کے مسئلے کو عالمی سیاست سے خارج کیا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صیہونی ہمیشہ یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ مزاحمتی گروہ عام شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جبکہ غزہ کی حالیہ جنگ میں، اقوام متحدہ کی تصدیق کے مطابق، صیہونی حکومت نے سیکڑوں اسکولوں اور خاندانوں کی اجتماعات پر حملے کیے۔
کثیری نژاد نے کہا کہ یحییٰ سنوار نے طوفان الاقصی کے آغاز میں سید حسن نصر اللہ کو خط لکھا تھا کہ اگر محاصرہ سخت ہو گیا تو ہم پھر سے کربلا کو دہرائیں گے۔