تحریر: بشری علوی
حوزہ نیوز ایجنسی | حمد ہے اس پاک پروردگار کی، جو خالق کل کائنات ہے اور اپنے بندوں سے بے حد محبت کرتا ہے۔ خداوند متعال حدیث قدسی میں فرماتا ہے: "اے بندہ! میری اطاعت کرو، میں تجھے اپنے جیسا بنا دوں گا۔ میں ایسا زندہ ہوں جیسے کبھی موت نہیں آتی، میں تجھے بھی زندہ بنادوں گا۔" یعنی خدا اپنے اطاعت گزار بندے کے ذکر کو لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ و جاوید بنا دے گا۔ وہ انسان جس نے اپنی ساری زندگی عشقِ الٰہی و اطاعت الٰہی میں صرف کردی تو یہ ناممکن ہے کہ خدا، اپنے بندے کے عشق کا جواب عشق سے نہ دے۔ جس کا دل عشقِ الٰہی سے لبریز ہو تو خدا بھی اپنے بندوں کے دل میں اس کی محبت ڈال دیتا ہے، اور اس کی زبانوں پر ان کا ذکر جاری کر دیتا ہے۔
شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
ھرگز آن که دلش زندہ شد به عشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما
ہرگز نہیں مرتا وہ، جس کا دل عشق سے زندہ ہوچکا ہو۔ عالم ہستی کی کتاب میں، ہمارا جاویداں ہونا لکھا جا چکا ہے۔
اس عالم ہستی کے ایک صفحے پر ایک ایسی عظیم شخصیت کا ذکر لکھا جاچکا ہے کہ جن کی شخصیت کو بیان کرنے کیلئے جتنا قلم اٹھایا جائے پھر بھی کم ہے، کیونکہ انہوں نے اپنی پوری زندگی عشق خداوندی میں گزار دی۔ اپنے آپ کو مظلوموں کی حمایت اور بندگان خدا کی خدمت میں تقسیم کردیا، اور جب اس فانی دنیا سے خداحافظی کی تو اپنے نام کی طرح تقسیم ہوگئے۔
شہید قاسم سلیمانی، یعنی کبھی ختم نہ ہونے والی شخصیت؛ ان کی یاد اور محبت آج بھی ہر ایک کے دل میں تازہ اور زندہ و جاوید ہے اور کیوں نہ ہو، کیونکہ جس کا دل یاد خدا میں تڑپتا ہو تو خدا بھی اس کی یاد اپنے بندوں کے میں ڈال دیتا ہے۔
شہید قاسم سلیمانی ہمیشہ کہتے تھے: " جو کوئی بھی خدا سے ڈرتا ہے، خدا ہر چیز کے دل میں اس کا خوف ڈال دیتا ہے۔"
شہید قاسم سلیمانی کا خدا کے حاضر و ناظر ہونے پر اس قدر پختہ ایمان تھا کہ اپنے دوست کو خط لکھتے ہوئے انہوں نے کہا: "میرے پیارے بھائی! کسی بھی حالت میں کسی بھی محبت کو خدا کی محبت اور کسی کی بھی رضا کو خدا کی رضا پر حاوی نہ ہونے دو۔"
شہید قاسم سلیمانی، یعنی کبھی نہ تھکنے والی شخصیت؛ انہوں نے خدا کی رضا حاصل کرنے کے لیے دن رات محنت کی اور کبھی خستگی اور تھکاوٹ محسوس نہیں کی۔ شہید حسن نصر اللہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے سردار کی شہادت کے بعد خطاب کے دوران، جنگی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ لبنان میں جنگ کے دوران کی بات ہے کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بعض اوقات خستگی اور تھکاوٹ محسوس کرتے تھے؛ لیکن مجھے یاد نہیں آتا کہ کبھی میں نے شہید کو خستہ حالت میں دیکھا ہو؛ بلکہ ہماری تھکاوٹ کے جواب میں وہ ہم سے کہا کرتے تھے کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے، غاصب اسرائیل ہمارے سر پر کھڑا ہے۔"
آپ مزید بیان کرتے ہیں کہ شہید قاسم سلیمانی نے کبھی بھی ہم پر احسان نہیں جتایا یا کوئی ایسا جملہ کہا ہو جس سے احسان جتلانے کا احساس ہو، بلکہ انہوں نے ہمیشہ یہی کہا کہ میں خدا کی خوشنودی کے لیے اپنا فریضہ انجام دے رہا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن جب خدا سے ملاقات کروں تو میرے لیے یہ کچھ سرمایہ کی صورت میں ہو۔"
شہید قاسم سلیمانی ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ شہادت تک پہنچنے کی شرط یہ ہے کہ دل کا تمام دنیوی تعلقات اور مادیات سے رخ موڑ لیا ہونا چاہیے، یعنی عشقِ الٰہی کے حصول کی ایک وجہ دنیوی تعلقات اور مادیات سے لگاؤ نہ رکھنا ہے۔ شہید قاسم سلیمانی نے عشقِ الٰہی کو پانے کے لیے ہر چیز سے منہ موڑ لیا، تاکہ اپنی منزل کو حاصل کرلیں۔ جب انہیں بتایا گیا کہ ایک افواہ لوگوں کی زبانوں پر گردش کر رہی ہے کہ آپ شہید ہوگئے تو آپ ہنستے ہوئے کہنے لگے: "یہ وہی چیز ہے جس کی تلاش میں، میں نے بیابانوں اور پہاڑوں کی خاک چھانی ہے۔"
آخر وہ وقت آں پہنچا کہ جس کی انہیں تلاش تھی، جب آخری ملاقات شہید حسن نصر اللہ کے ساتھ تھی تو اس وقت آپ نے کہا: "جب پھل پک جائیں تو باغبان کو اسے چن لینا چاہیے، پکے ہوئے پھل اگر درخت پر رہ جائیں تو وہ خراب ہو جاتے ہیں اور خود بخود گر جاتے ہیں۔"
علامہ طباطبائی:
من خسی بی سروپایم که به سل افتادم، او که من رفت مرا هم به دل دریا برد، من به سر چشمہ خورشید نہ خود بردہ راہ، ذرہ بودم و مهر تو بالا برد۔
میں حقیر ساخس و خاشاک ہوں، جو سیلاب میں بہتا جارہا ہوں؛ وہ بہتے ہوئے مجھے بھی سمندر کی جانب لے جارہا تھا، میں نے سورج کے سر چشمہ کی جانب جانے والا راستہ خود طے نہیں کیا۔ میں ایک ذرہ تھا اور تیری محبت مجھے اوپر لے کر گئی۔
آپ کا تبصرہ