حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،امام جمعہ بغداد، آیت اللہ سید یاسین موسوی نے موجودہ علاقائی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ شام میں ہوا، وہ عراق اور اس کے سیاسی نظام پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عراق کے بارے میں دو نقطہ نظر پائے جاتے ہیں: ایک گروہ سمجھتا ہے کہ امریکہ عراق کے سیاسی نظام کو تبدیل نہیں کرنا چاہتا، جبکہ دوسرا گروہ یقین رکھتا ہے کہ امریکی اس تبدیلی کا فیصلہ کرچکے ہیں اور آئندہ دو سے تین سالوں میں شام کی طرح عراق میں بھی سیاسی تبدیلی کے لیے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
آیت اللہ موسوی نے مزید کہا کہ امریکیوں نے عراق کے وزیر اعظم کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ صیہونی حکومت کو حشد الشعبی پر حملے یا عراقی شخصیات کے قتل سے روکیں گے، تاہم یہ یقین دہانیاں بائیڈن کی حکومت کے خاتمے تک محدود ہیں، اور ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد حالات یکسر بدل جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ٹرمپ اپنی سابقہ صدارت کے دوران جولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل میں شامل کرچکے ہیں اور اب ان کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل چھوٹا ہے، اس لیے شام کے کچھ حصے، عراق، اردن اور سعودی عرب کے بعض علاقوں کو اسرائیل میں شامل کیا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی، وہ اسلامی ممالک کو تقسیم کرنے کی کوشش کریں گے۔
آیت اللہ موسوی نے کہا کہ اس منصوبے کے مطابق، اگر سعودی عرب اور امارات جیسے ممالک تقسیم نہ ہوں تو ان کی دولت کو تقسیم کیا جانا چاہیے، یعنی عرب ممالک اپنی دولت کا کچھ حصہ امریکہ کے حوالے کریں۔
انہوں نے کہا کہ عراق میں کچھ عناصر ایسے ہیں جو متحدہ عراق پر یقین نہیں رکھتے، جن میں کرد شامل ہیں جو صیہونی حکومت کے مفادات کے تحت کام کر رہے ہیں، اور کچھ سنی جو ترکی کے صدر اردوغان کے زیر اثر ہیں، عراق کی تقسیم کے خواہاں ہیں۔ جبکہ اردوغان خود عراق کے بعض حصوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔
آخر میں، آیت اللہ موسوی نے عوامی مطالبات اور حکومتی مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ایران کی حمایت کی بدولت عراق امریکہ کے خلاف ایک حد تک آزاد ہے، ورنہ عراق بھی دیگر عرب ممالک کی طرح امریکیوں اور صیہونیوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن چکا ہوتا۔
انہوں نے عراقی عوام کو اپنی فوج اور مسلح افواج پر فخر کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا: ہم طاقتور ہیں، اور یہی طاقت ہمیں تمام چیلنجز کے خلاف مزاحمت کرنے میں مدد دیتی ہے۔
آپ کا تبصرہ