حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، معروف حوزوی محقق اور مذہبی اسکالر سید ناہید موسوی نے "دهه کرامت" کی مناسبت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ عشرہ، جو یکم تا یازدہم ذیالقعدہ تک جاری رہتا ہے، عصر حاضر کی شیعہ ثقافتی و دینی روایات میں ایک اہم موقع ہے جو حضرت امام علی رضا علیہالسلام اور ان کی ہمشیرہ حضرت فاطمہ معصومہ سلاماللهعلیها کی ولادتوں کی مناسبت سے تشکیل پایا ہے۔ ان دونوں ہستیوں کے درمیان قائم معرفتی، عاطفی اور ایمانی رشتہ، اسلامی اخلاقیات بالخصوص کرامت انسانی کے اصولوں کو اجاگر کرنے کا بہترین ذریعہ بن جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شیعہ فکر میں ائمہ معصومین علیہمالسلام نہ صرف دینی پیشوا ہیں بلکہ اخلاق، علم اور محبت و مہربانی کے اعلیٰ ترین نمونے بھی ہیں۔ امام علی رضا علیہالسلام، جو "عالم آل محمد" کے لقب سے معروف ہیں، اپنے علم، حلم اور حلم آمیز سیرت کے ذریعے، اسلامی تاریخ کے ایک نازک مرحلے پر خالص اسلام کو فکری و سیاسی انحرافات سے بچانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان کے علمی مناظرے اور مختلف ادیان کے علماء سے مکالمے، ان کی علمی وسعت، تحمل مزاجی اور اخلاق حسنہ کی واضح علامت ہیں۔
سید ناہید موسوی نے امام رضا علیہالسلام کی علمی اور اخلاقی سیرت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہ صرف اسلامی تاریخ کے ایک ممتاز علمی چہرہ ہیں بلکہ عباسی خلیفہ مامون کے دور میں جبری ولیعہدی قبول کرنے کے باوجود اس منصب کو اہل بیت علیہمالسلام کے علوم کو عام کرنے کا ذریعہ بنایا۔ انہوں نے علمی و فکری میدان میں جو خدمات انجام دیں، ان کا اثر آج تک باقی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امام رضا علیہالسلام کے دور امامت میں اسلامی معاشرہ یونانی، ہندی اور سریانی علوم کے عربی ترجمہ کی وجہ سے شدید فکری چیلنجز سے دوچار تھا، اور اس کا تقاضا تھا کہ کوئی علمی و الٰہی مرجع اس طوفان فکری کا سامنا کرے۔ امام رضا علیہالسلام نے اسی ذمہ داری کو بحسن و خوبی نبھایا۔
ان کا کہنا تھا کہ امام علیہالسلام نے متعدد مذاہب کے علماء، فلاسفہ، اطباء اور متکلمین کے ساتھ مناظروں کے ذریعے نہ صرف اسلامی عقلانیت کی برتری کو واضح کیا بلکہ وحی پر مبنی علمی معیار کو بھی متعین کیا۔ مشہور مناظرے جیسے جاثلیق نصرانی، رأسالجالوت یہودی، صابئین اور زرتشتیوں کے ساتھ ہونے والے علمی مکالمات اس بات کا ثبوت ہیں کہ امام رضاؑ نے علم و حکمت کو اتحاد و تفاهم کا ذریعہ بنایا۔
موسوی نے مزید کہا کہ امام رضا علیہالسلام کی علمی و روحانی شخصیت اہل سنت کے علمائے کرام کے ہاں بھی احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ ان کے مقام علمی کو تسلیم کرنا، ان سے مروی احادیث اور ان کے روضہ مبارک کی زیارت میں غیر شیعہ مسلمانوں کی شرکت، اس بات کی دلیل ہے کہ شخصیت رضوی وحدتِ اسلامی کی علامت ہے۔
انہوں نے امام رضا علیہالسلام کے عقلی طرزِ دیانت کو سراہتے ہوئے کہا کہ امام نے عقل و تدبر کو دین کی تفہیم کا بنیادی ذریعہ قرار دیا اور سوال و تحقیق کی ثقافت کو شیعیانِ اہل بیت میں رواج دیا۔ ان کے تربیت یافتہ شاگردوں میں عبدالعظیم حسنی، ریّان بن شبیب، صفوان بن یحیی اور داوود بن قاسم جعلی جیسے علمی و دینی شخصیات شامل ہیں، جو ان کی علمی تحریک کے علمبردار تھے۔
موسوی کے بقول، امام رضا علیہالسلام کا سیرت مبارکہ ایک ایسا ثقافتی اور اخلاقی نمونہ ہے جس میں مدارا، علمی گفتوگو، اور ارباب علم کی تکریم کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ان کی سیرت سے سیکھا جا سکتا ہے کہ اختلاف رائے کو بھی برداشت کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ علم و منطق پر مبنی ہو۔ امام ہادی علیہالسلام کی زیارت "جامعہ کبیره" میں اہل بیت علیہمالسلام کی صفات کا جو ذکر ہے، وہ امام رضا علیہالسلام میں نمایاں طور پر جلوہ گر ہیں۔
گفتگو کے اختتام پر انہوں نے کہا: "امام رضا علیہالسلام کی علمی، اخلاقی اور فکری قیادت نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ پوری انسانی تمدن کے لیے روشنی کا مینار ہے۔ ان کی سیرت ہمیں سکھاتی ہے کہ کس طرح پیچیدہ سیاسی حالات میں بھی دینی و ثقافتی تشخص کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ دهه کرامت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ عقل، گفتوگو اور کرامتِ انسانی پر مبنی دیانت کو معاشرے میں فروغ دیا جائے۔"
آپ کا تبصرہ