بدھ 14 مئی 2025 - 17:38
حوزہ و یونیورسٹی کی بقا "علم، عقل اور تہذیب" کے تین ستونوں پر قائم ہے:آیت‌اللہ العظمی جوادی آملی

حوزہ/ آیت‌ اللہ العظمی جوادی آملی نے "علم، عقل اور تہذیب" کے نجات بخش سہ رُکنی نسخے کو اسلامی دنیا کے حوزہ جات اور یونیورسٹیوں کی انفرادی و اجتماعی ترقی کا راستہ قرار دیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت‌ اللہ العظمی جوادی آملی نے منگل 13 مئی کو نجف اشرف میں دارالعلم امام خوییؒ میں سینکڑوں اساتذہ، طلاب اور علماء کے مجمع سے خطاب فرمایا۔

حضرت آیت‌ اللہ جوادی آملی نے قدیم اور ریشه‌دار نجف اشرف کے حوزہ علمیہ کی عظمت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ حوزہ "اُسِّسَ عَلَی التَّقْوَی" (تقویٰ کی بنیاد پر قائم) کی روشن مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس عظیم علمی مرکز نے شیخ طوسیؒ سے لے کر آیت‌الله خوییؒ تک الٰہی رجال کو پروان چڑھایا ہے جو قرآن کی آیت "فِیهِ رِجَالٌ یُحِبُّونَ أَنْ یَتَطَهَّرُوا" کا مصداق ہیں، اور یہ تمام برکتیں امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کی مرہونِ منت ہیں۔

آپ نے اپنے خطاب کو دو اہم حصوں پر تقسیم کیا: مثبت ذمہ داریاں (وظایف ایجابی) اور منفی ذمہ داریوں سے اجتناب (وظایف سلبی)۔

علم: انسانی فریضہ

مثبت ذمہ داریوں کے ضمن میں آپ نے تحصیل علم کو تمام انسانوں پر فرض قرار دیا اور فرمایا کہ "طلب علم ایک فریضہ ہے"۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین اور ان کے تمام موجودات کو انسان کے لیے مسخر کیا ہے، لہٰذا کوئی یہ کہنے کا حق نہیں رکھتا کہ "میں نہیں کر سکتا"۔ پوری کائنات، خدا کی لائبریری ہے اور انسان کو اس سے سیکھنے اور تسخیر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

آپ نے حوزہ جات علمیہ کو قرآن اور سنتِ اہل بیت علیہم السلام سے گہرے اور دقیق فہم کی حامل قرار دیا اور جامعات کو مادی و طبیعی دنیا کی معرفت کا مرکز بتایا تاکہ امت اسلامی مشرق و مغرب کی وابستگی سے نجات پائے۔

عقل اور تہذیب: علم کے ساتھ لازم

منفی ذمہ داریوں کے بیان میں فرمایا کہ صرف علم کافی نہیں، بلکہ معاشرہ کو "عالم" ہونے کے ساتھ "عاقل" بھی بننا چاہیے۔ ہماری ذمہ داری صرف علمی جہالت یا عملی نادانی کو دور کرنا نہیں، بلکہ ہمیں جاہلی نظام اور ساختی جہالت سے بھی مقابلہ کرنا ہے۔ آپ نے کہا کہ امام صرف دین کے معلم نہیں ہوتے، بلکہ معاشرے کو تمدنی جاہلیت سے پاک کرنے کی ذمہ داری بھی ان پر عائد ہوتی ہے۔

حدیث "من مات و لم یعرف امام زمانه مات میتةً جاهلیة" کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر کوئی معاشرہ امام اور نظامِ ولایت کو پہچان نہ سکے تو وہ جاہلیت میں ہی باقی رہتا ہے۔ جنگ صفین اور فتنے کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ حضرت علی علیہ السلام نے ان فتنوں کے بعد کئی بار فرمایا کہ "معاشرہ دوبارہ جاہلیت کی طرف لوٹ گیا ہے" اور یہ انفرادی جہالت کی وجہ سے نہیں بلکہ جاہلی نظام کے غلبے کی وجہ سے تھا۔

تقلید نہیں، اجتہاد

حضرت آیت‌اللہ جوادی آملی نے اجتہاد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ صرف تقلید معاشرے کے مسائل کا حل نہیں ہے۔ جو افراد استعداد رکھتے ہیں، انہیں مجتہد بننا چاہیے تاکہ وہ مسائل کو اصل منابع سے استنباط کر سکیں، فروع کو اصول کی طرف لوٹا سکیں اور زمانے کے سوالات کا جواب دے سکیں۔

نجات کی راہ: علم، عقل اور تہذیب

آپ نے "علم، عقل اور تہذیب" کے تین اصولوں کو اسلامی حوزات اور یونیورسٹیوں کے لیے انفرادی و اجتماعی ترقی اور نجات کا راستہ قرار دیا اور آخر میں تمام امت مسلمہ کے لیے دعا فرمائی۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha