شاعر: عینی رضوی ہندی
گلشنِ قم میں عجب آج بہار آئی ہے
ہر کلی وجد میں ہے جھومتی پروایی ہے
کون آیا کہ جو پھولوں کو ہنسی آئی ہے
ہر طرف نرگسی پھولوں کی صف آرائی ہے
ملکِ ایراں میں عجب باد بہاری آئی
اٹ٘ھو تعظیم کو زہرا کی دلاری آئی
نکلی وہ شہرِ مدینہ سے کہ آیت نکلی
چاند کو ڈھونڈنے تاروں کی جماعت نکلی
جیسے اسلام بچانے کو امامت نکلی
پوتی حیدر کی جو با جاہ و جلالت نکلی
وقت کے مرحب و عنتر کو پچھاڑا آکر
ظلم و بیداد کے خیبر کو اکھاڑا آ کر
اے قلم تو ہی بتا کیسے فضیلت لکھوں
عقل حیران ہے کس طرح سے مدحت لکھوں
پہلے زمزم سے قلم دھوؤں تو عصمت لکھوں
جس پہ قرباں ہو امامت وہ حقیقت لکھوں
کس نے دنیا میں بھلا ایسا شرف پایا ہے
دہنِ معصوم سے معصومہ لقب پایا ہے
آئیں جب قم میں تو اس قم کا ستارہ چمکا
پہلے روشن تھا مگر اور دوبالا چمکا
الفتِ آلِ محمد کا اجالا چمکا
اتریں محمل سے تو اِک نور کا ہالہ چمکا
کیا کہوں کیسی عجب سب نے عبادت کر لی
دیکھنے والوں نے زہرا کی زیارت کر لی
آپ کا پہلا قدم جونہی زمیں نے چوما
قم کی اس خاک کو پھر عرش بریں نے چوما
لوح نے کرسی نے جنت کی جبیں نے چوما
ماہ و خورشید نے تاروں کے نگیں نے چوما
سربلندی میں اِسے طور بنا کر چھوڑا
قم کا اک گھر تھا جسے نور بنا کر چھوڑا
از قلم: عینی رضوی ہندی (ایران)









آپ کا تبصرہ