حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سربراہ حوزہ علمیہ ایران آیت اللہ علی رضا اعرافی نے نجف اشرف میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس محقق میرزا نائینی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح مرحوم محقق میرزا نائینی نے اپنے زمانے میں انگریز سامراج کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا، اسی طرح آج بھی نجف اور قم کے مراجع عظام عراق، ایران اور پوری امت مسلمہ کو استکباری حملوں سے بچانے کے لئے مضبوط دیوار بنے ہوئے ہیں۔
تقریب میں مراجع کے نمائندگان، علما، محققین، علمی اداروں کے سربراہان اور دینی مراکز کی شخصیات نے شرکت کی۔ آیت اللہ اعرافی نے آغازِ تقریر میں آیت اللہ سیستانی کی سرپرستی اور عتبات عالیات کی میزبانی کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔
کانفرنس کیوں ضروری ہیں؟
انہوں نے کہا کہ ایسی علمی شخصیات کی خدمات کو اجاگر کرنے سے نہ صرف نسلِ نو کو اپنے اسلاف سے آگاہی ملتی ہے بلکہ عالمی سطح پر حوزہ علمیہ کی فکری و تہذیبی شناخت بھی نمایاں ہوتی ہے۔ ان کے مطابق یہ کانفرنس حوزہ علمیہ کے علمی ورثے، اصولی مکتب اور سیاسی سوچ کو نئی نسل تک منتقل کرنے کا اہم ذریعہ ہیں۔
مرحوم نائینی کےکا علمی مقام اور فکری خصوصیات
آیت اللہ اعرافی نے میرزا نائینی کے علمی و فکری امتیازات کو بارہ نکات میں بیان کیا، جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:
1. غیر معمولی حافظہ اور ادبی مہارت
مرحوم نائینی کا حافظہ، ذہانت، عربی و فارسی پر عبور اور شاگردوں کی تربیت میں خاص استعداد انہیں اپنے معاصرین سے ممتاز کرتی تھی۔
2. زمانے کے تقاضوں کا گہرا شعور
وہ مغربی سیاسی و فکری یلغار کے دور میں زندگی بسر کر رہے تھے، لیکن گوشہ نشینی کے بجائے عالمی فکری تبدیلیوں کو سمجھ کر نئے چیلنجوں کا مقابلہ کیا۔
3. علم و عمل کا حسین امتزاج
مرحوم میرزا نائینی نے علمی تحقیق کے ساتھ ساتھ میدانِ عمل میں بھی فعال کردار ادا کیا اور اپنے دور کے بڑے اجتماعی و سیاسی مسائل میں رہنمائی فراہم کی۔
4. جامعیتِ علمی
انہوں نے فقہ، اصول، کلام، قرآن، حدیث، اخلاق اور سیاسی فکر کے میدانوں میں بلند مقام حاصل کیا۔
5. حوزاتِ علمیہ کے مختلف مکاتب سے استفادہ
اصفہان، سامرا، کربلا اور نجف کے علمی مراکز اور مکاتبِ فکر سے استفادہ ان کے علمی افق کو وسیع کرنے کا سبب بنا۔
6. علمی میراث کے ساتھ مضبوط وابستگی
وہ جدید مباحث سے بھی باخبر تھے اور اجتہادی اصولوں سے انحراف کئے بغیر نئے علمی جہتوں کی بنیاد رکھی۔
7. علم اصول میں عظیم انقلاب
نائینی علیہ الرحمہ کے افکار نے علمِ اصول میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ ان کے نظریات آج بھی نجف و قم کے درسِ خارج میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔
8. فقہی نوآوری
فقهالقانون، ولایت فقیہ، حکومت، عوامی نظارت، نظاماتِ اجتماعی اور جدید فقہی تقسیمات ان کی نمایاں علمی خدمات ہیں۔
9. سیاسی فکر کے بانی
کتاب "تنبیهالأمة" میں انہوں نے اسلامی سیاسی نظریہ، امت کے اختیارات، آزادی بیان، عوامی نظارت اور عدالت پر مبنی حکومت کی بنیاد پیش کی۔ انہوں نے مشروطہ حکومت کو استبداد پر ترجیح دی۔
10. اسلامی تمدن کے قائل
وہ اسلام کو تمدن ساز مذہب سمجھتے تھے جو زمانے کی ضروریات کے مطابق معاشرتی و سیاسی نظام رکھتا ہے۔
نائینی کی سیاسی زندگی: میدانِ عمل کا مجاہد
آیت اللہ اعرافی نے کہا کہ عالمی تبدیلیوں کے نازک دور میں نائینی علیہ الرحمہ نے گوشہ نشینی نہیں اختیار کی۔ انہوں نے تین بڑی تحریکوں میں قائدانہ کردار ادا کیا:
1. تحریکِ تنباکو میں میرزای شیرازی کے مشیر
2. تحریکِ مشروطہ میں آخوند خراسانی کے فکری رفیق
3. عراق کے ثورة العشرین میں استعمار مخالف رہنمائی کے اہم ستون
ان کے مطابق مرحوم میرزا نائینی ایران و عراق کے سیاسی و فکری منظرنامے کی سب سے مؤثر شخصیات میں سے تھے اور آج کے حوزات علمیہ اور مراجع کرام بھی اسی راستے پر استقامت سے کھڑے ہیں۔









آپ کا تبصرہ