۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
حجت الاسلام میرزا محمدی
حجت الاسلام میرزامحمدی:

حوزہ / مذہبی مسائل کے ایک ماہر نے کہا: ہم میں سے بعض مبلغین نے چونکہ اپنے تبلیغی مراحل کو  قرآن کے برخلاف شروع کیا ہے لہذا اپنی روزمرہ زندگی میں اس کے عدم تأثیر کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

ایران کے صوبہ سمنان سے حوزہ نیوز ایجنسی کی  رپورٹ کے مطابق حجت الاسلام محمد میرزامحمدی نے سمنان شہر کے طلباء اور علماء کے ساتھ ایک نشست میں قرآن ِ کریم کی نگاہ سےتبلیغِ دین کے مراحل  کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہم میں سے بعض مبلغین نے چونکہ اپنے تبلیغی مراحل کو  قرآن کے برخلاف شروع کیا ہے لہذا اپنی روزمرہ زندگی میں اس کے عدم تأثیر کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

انکا مزید کہنا تھا کہ قرآن کریم کے نقطۂ نظر سے ’’تبلیغِ دین  کا پہلا مرحلہ‘‘ خود اپنے گھرسے تبلیغِ دین کا آغاز کرنا ہے۔تبلیغِ دینِ مبین ایک ایسا امر ہے کہ جس کے لئے ہم نے کوئی خاص اقدام نہیں کیااور اپنی گوناگوں مصروفیات کو جواز بنا  کر اس عظیم دینی فریضہ سے غفلت برتی ہے۔

انھوں نے’’تبلیغِ دین کے دوسرے مرحلہ‘‘ کو بیان کرتے ہوئے کہا: قرآن کریم کے نقطۂ نظر سے ’’تبلیغِ دین  کا دوسرا مرحلہ‘‘ اپنے خاندان اور عزیز و اقرباء سے تبلیغِ دین کے مبارک کام کو انجام دینا ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہےـ’’ وَ أَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ‌‘‘ یعنی دین کی تبلیغ میں اپنے لواحقین اور اقرباء سے غافل نہ ہوں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم جو کہ پیغمبر بشریت ہیں پھر بھی خداوندِ کریم ان سے تقاضا کر رہا ہے کہ تبلیغِ دین کو اپنے خاندان کے افراد سے شروع کرو۔

حجت الاسلام میرزامحمدی نے کہا: قرآن کریم کے نقطۂ نگاہ سے ’’تبلیغِ دین  کا تیسرا مرحلہ‘‘ انسان کا اپنا ’’وطن‘‘ ہے۔ بعض طلبہ نہایت باصلاحیت ہیں لیکن چونکہ اپنے وطن سے دور ہیں اور جیسا کہ گذشتہ دور میں کہا جاتا تھا کہ ’’طلبہ کے علاقہ میں اس کی قدر کو نہیں جانا جاتا‘‘ حالانکہ یہ بات قرآن کریم کے فرمودات کے بالکل خلاف ہے چونکہ قرآن کریم کے مطابق انسان کا وطن اور اس کے اطراف کو زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے قرآن کریم کے نقطۂ نگاہ سے ’’تبلیغِ دین  کا چوتھے مرحلہ‘‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: قرآن کریم کے نقطۂ نگاہ سے ’’تبلیغِ دین  کا چوتھا مرحلہ‘‘عالمی سطح پر اشتہارات کیا دور دورہ ہے، ایک طلبہ جیسے ہی لباسِ روحانیت زیبِ تن کرتا ہے تو کہنے لگ جاتا ہے کہ اسے تبلیغ کے لئے دوسرے ممالک میں جانا ہے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ مطالب کو صرف زبانی حفظ کرنا کافی نہیں ہے بلکہ دین کو ماہرانہ انداز سے دقیق اور عمیق لحاظ سے سمجھنا ضروری ہے۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ۲۳سالہ دورِ تبلیغ میں آپؐ تقریباً ۱۸ سے ۱۹ سال تبلیغِ دین کے لئے فلسطین جاتے رہے ہیں۔بسا اوقات تبلیغِ دین کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلتااور اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ طلبہ کا بعض فضول بحثوں می پڑ جانا ہے۔

انہوں نے آخر میں دینِ مبینِ اسلام کی تبلیغ میں حد درجہ زیادہ کوشش کرنے پر تاکید کرتے ہوئے کہا: ہمارے پاس خداوندِ کریم اور  اہلبیتِ پیغمبر اکرم (ص)سے مدد طلب کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ لہذا ایک مبلّغِ دین کو ہمیشہ اور سب سے زیادہ  دعا و زیارات سے انس و لگاؤ ہونا چاہئے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .