حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مدرسہ امام صادق علیہ السلام ( واشی، نئی ممبئی) میں ایک علمی نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں علماء، فضلاء اور طلاب علوم دینیہ نے شرکت کی۔ اس نششت علمی کے مہمان خصوصی ایرانی کلچر ہاؤس کے ڈائریکٹر جناب محسن آشوری تھے۔ جبکہ جلسے کی صدارت کے فرائض حوزہ علمیہ امام صادق علیہ السلام کے مہتمم اور مدیر جناب محسن ناصری نے انجام دی اور آئے ہوئے مہمانوں کا استقبال کیا اور جلسے کے اہداف و مقاصد کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ قرآن مجید کو صرف ایک مذہبی کتاب کے عنوان سے نہیں دیکھا جانا چاہیے بلکہ یہ ایک مکمل دستور حیات ہے لہذا ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں اس کی طرف توجہ کرنا چاہیے۔ وہیں جلسے کی نظامت کا فریضہ حوزہ علمیہ کے مدرس مولانا سید عابد رضا کراروی نے ادا کیا۔
اطلاع کے مطابق جلسے کی شروعات تلاوت کلام الٰہی سے ہوئی اس کے فوراً بعد حوزۂ علمیہ امام صادق(ع) کے طلاب نے نشید پڑھی۔ بعدہ مقالہ خوانی کا سلسلہ شروع ہوا جس میں "اسلامی معاشره میں اتحاد کی ضرورت " کے موضوع پر سب سے پہلا مقالہ حجۃالاسلام والمسلمین عالیجناب مولانا حیدر عباس رضوی نے پیش کیا اور اس کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآنی تعلیمات کا ایک اہم اور ضروری عنصر "اتحاد" ہے بالخصوص قرآن مجید نے کلمہ توحید پر یقین رکھنے والوں سے اتحاد اور آپسی رواداری کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسرا مقالہ حجۃالاسلام والمسلمین عالیجناب مولانا سید فرمان علی موسوی نے پڑھا جس کا موضوع تھا "قرآن میں عورتوں کے مقام و منزلت " موصوف نے مقالہ خوانی کرتے ہوئے بیان فرمایا: صنف نسواں نے انسانی تاریخ میں جو کامیابیاں رقم کی ہیں وہ قابل ذکر ہیں کہ جن کو قرآن نے بھی بعض موقعوں پر بڑے شدومد کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مثلا جناب مریم، سارا اور ہاجرہ جیسی خواتین کو بطور نمونہ پیش کیا ہے تاکہ قیامت تک آنے والی عورتیں انہیں اپنا نمونۂ عمل بنا سکیں۔
اس مقالے کے بعد مولانا سید وصی حیدر نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ صرف قرآن کی لفظی تلاوت ہی کافی نہیں ہے بلکہ اپنی عملی زندگی میں شامل کرنے کے بعد ہی صحیح معنوں میں اس کے فیوض و برکات ہماری زندگیوں پر مرتب ہونگے۔
اس کے بعد مولانا سید محمد حیدر اصفہانی نے مجمع کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن مجید اپنے قارئین کو غوروفکر اور اس سے عبرت حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے لہذا ہم نے دیکھا کہ جنہوں نے قرآن میں غور و فکر نہیں کیا اور صرف ظواہر قرآن کو کافی سمجھا، ایسے ہی لوگوں نے اسلام کے نام پر بے گناہ انسانوں کا قتل کیا اور اس کے جواز میں قرآنی آیات کو پیش کیا جبکہ قرآنی تعلیمات اس کے برعکس تھی۔ ایسے لوگ صدر اسلام میں خوارج اور اس زمانے میں داعش، طالبان اور القاعدہ جیسے گروہوں سے موسوم ہوئے۔
وہیں حجۃالاسلام والمسلمین مولانا سید عسکری نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آج ہمارے درمیان قرآن مہجور ہے جبکہ اس کے بغیر دنیا اور آخرت دونوں جہاں میں کامیابی ممکن نہیں ہے لہذا ہر مسلمان کا بالخصوص علماء کرام کا یہ فریضہ ہے کہ قرآن اور اس کی تعلیمات کو عام لوگوں تک پہنچان نے کی کوشش کریں تاکہ معاشرے سے جہالت کے اندھیرے کو دور کیا جاسکے۔
آخر میں مہمان خصوصی اور ایرانی کلچر ہاؤس کے ڈائریکٹر جناب محسن آشوری نے بتایا کہ آج ایران میں جو کچھ ترقی اور علمی پیشرفت ہوئی ہیں وہ سب اسی قرآن کی برکت سے ہے۔ اور آج ہم نے علم و ٹکنالوجی کے میدان میں بہت سے ممالک کو مات دے دی ہے لہذا آج امریکہ جیسا سپر پاور ملک بھی ایران کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے۔ نیز انہوں نے فرمایا کہ ہمارے شہداء بالخصوص شہید قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المھندس جیسے شہیدوں نے قرآن کی حقیقی تعلیمات پر عمل کرکے آج پوری دنیا کو یہ بتا دیا ہے کہ جنگیں اسلحوں سے نہیں بلکہ قرآنی تعلیمات کے زیر سایہ اور ایمانی قوت سے جیتی جاتی ہیں۔
آخر میں اس علمی اور قرآنی نشست کے کنوینر حجۃالاسلام والمسلمین عالیجناب مولانا محسن ناصری نے شرکائے جلسہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی علمی اور قرآنی نشستیں کثیر تعداد میں منعقد ہونا چاہیے تاکہ قرآنی تعلیمات کو عام کیا جا سکے۔
مذکورہ علماء کے علاوہ اس نشست میں مولانا علی عباس، مولانا امینی، مولانا اسد عباس، مولانا عادل رضا، مولانا محفوظ، مولانا یوسف، مولانا عابدی اور مولانا علی محمد نے شرکت فرمائی۔
وہیں جلسے کے دوسرے حصے میں حوزۂ علمیہ امام صادق علیہ السلام سے فارغ ہونے والے اور جامعۃ المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی قم کے انٹرنس امتحان میں کامیابی حاصل کرنے والے طلاب کو انعامات سے نوازا گیا اور ان کی قدردانی کی گئی۔ قابل ذکر ہے کہ اس امتحان میں اس حوزے کے 8 طلاب نے شرکت کی تھی جس کے کتبی مرحلے میں سب کامیاب ہوئے۔