حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ہمیں سردشت کیمیکل بمباری کے واقعے میں بیک وقت انسانیت اور تشدد کے دونوں واقعات دیکھنے میں آئے ہیں اور تاریخ خود گواہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران، وحشی پن کیخلاف مقابلہ کرنے کیلئے انسانی حقوق کی پامالی نہیں کرتا۔
ان خیالات کا اظہار "محمد جواد ظریف" نے ہفتے کے روز امریکی انسانی حقوق کی قربانیان سے منعقدہ ویڈیو کانفرنس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے سردشت کیمیکل بمباری کی سالگرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے سردشت واقعے میں بیک وقت انسانیت اور تشدد کے دونوں واقعات دیکھنے میں آئے ہیں؛ انسانیت اور بے لوث لوگوں کی طاقت جس نے کبھی بھی کیمیائی بمباری کے دکھ اور درد کو برداشت کرکے انسانیت کے دائرے کو نہیں چھوڑا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اقوام متحدہ نے عراق کیجانب سے کیمیایی ہتھیاروں کے استمعال سے متعلق ایرانی خدشات کا جائزہ لیا ہے اور ساتھ ہی ایران کیجانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق عراقی دعوے کی چانچ پڑتال کی ہے۔
ظریف نے مزید کہا کہ دریں اثنا معائنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرنے والا فریق صدام کی حکومت تھی اور اسلامی جمہوریہ نے حتی اس کی روک تھام کیلئے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال نہیں کیا تھا۔
ایران کے علاقے سردشت اور عراق کے علاقے حلبچہ صدام کی وحشی پن کا نقطہ عروج تھا
ظریف نے کہا کہ ایرانی علاقے سردشت اورعراقی علاقے حلبچہ صدام کی حکومت کی درندگی کا نقطہ عروج تھا لیکن یہ ان کے غیر انسانی رویے کی واحد مثال نہیں تھی؛ سن 1984 سے عراقی حکومت نے محاذوں پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال شروع کیا اور اسلامی جمہوریہ ایران نے اس حقیقت کا اعلان بین الاقوامی برادری، اقوام متحدہ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے کیا لیکن بدقسمتی سے وہ طقاتور ممالک جنہوں نے جارح حکومت کی حمایت میں اپنے تمام مفادات کو دیکھا وہ سب خاموش رہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل نے کئی وفود محاذوں پر بھیج دیے ان تمام وفود نے محاذوں پر جاکر اور ماحولیاتی حالات کی جانچ کرکے اور اسپتالوں میں جاکر یہ ثابت کردیا کہ عراقی حکومت ہی کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرتی تھی۔