حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لکھنو/ شہدائے کربلا کے چہلم کے موقع پر کالا امام باڑہ میں مجلس عزا منعقد ہوئی۔ جسے مولانا سید علی ہاشم عابدی نے خطاب کرتے ہوئے زیارت اربعین کے فقرہ "الْفاَّئِز بِکَرامَتِکَ اَکْرَمْتَهُ بِالشَّهادَهِ" یعنی خدایا امام حسین علیہ السلام تیری کرامت سے کامیاب ہوئے اور تو نے انھیں شہادت کے ذریعہ کریم بنایا، سعادت عطا فرمائی اور طیب و طاہر ولادت سے انہیں مخصوص فرمایا۔ بیان کیا کہ ان فقرات میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے واضح فرما دیا کہ حقیقی کامیابی بغیر کرامت الهی کے ممکن نہیں۔ اور اسکی کرامت اسی وقت نصیب ہوگی جب انسان اپنے نفس، اپنی خواہشات، اپنی تمناووں کے قید سے آزاد ہو کر اپنا سب کچھ جان، مال، اولاد، عزت، آبرو سب اپنے معبود کے حوالہ کر دے، اسکی فکر و نظر میں فقط مرضی پروردگار ہو اور وہ اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کر دے ، اللہ انہیں قربانیوں کے سبب کرامت عطا کرتا ہے اور دوجہاں کی سعادت اسکا مقدر قرار دیتا ہے۔
مولانا نے زیارت اربعین کا فقرہ "جَعَلْتَهُ حُجَّةً عَلَى خَلْقِكَ مِنَ الْأَوْصِيَاءِ فَأَعْذَرَ فِي الدُّعَاءِ وَ مَنَحَ النُّصْحَ وَ بَذَلَ مُهْجَتَهُ فِيكَ لِيَسْتَنْقِذَ عِبَادَكَ مِنَ الْجَهَالَةِ وَ حَيْرَةِ الضَّلالَةِ" یعنی اے پروردگار تو نے اپنے اوصیاء میں سے امام حسین علیہ السلام کو اپنی مخلوقات پر حجت قرار دیا۔ آقا امام حسین علیہ السلام نے لوگوں کو حق کی دعوت دی کہ کسی کے پاس کوئی بہانہ نہ رہے۔ اور آپ نے نصیحت کرنے میں تامل نہیں فرمایا۔ اور تیری راہ میں اپنا خون بہا دیا تا کہ تیرے بندوں کو جہالت اور گمراہی کی حیرت سے نجات عطا فرمائیں۔ بیان کیا کہ ان فقرات میں حجت خدا کی سب سے اہم خصوصیت یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ امت کی ہدایت میں اپنے پورے وجود کو صرف کر دیتا ہے تا کہ کسی کے پاس بہانہ نہ رہے کہ ہم ہدایت سے محروم تھے انبیاء و مرسلین اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی تاریخ گواہ ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود آپ حضرات کا صرف ایک مقصد رہا کہ اللہ کا کوئی بندہ ہدایت سے محروم نہ رہے۔
امام حسین علیہ السلام انبیاء علیھم السلام کے وارث ہیں جیسا کہ اسی زیارت اربعین میں ذکر ہے "وَ أَعْطَيْتَهُ مَوَارِيثَ الْأَنْبِيَاءِ" کہ خدایا تو نے انہیں انبیاء علیھم السلام کی میراث عطا فرمائی۔ تو امام حسین علیہ السلام نے بھی اصلاح امت میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ شاید اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا۔ "ان الحسین مصباح الھدی و سفینہ النجاہ" کہ بے شک امام حسین علیہ السلام چراغ ہدایت اور کشتی نجات ہیں۔
مولانا نے زیارت اربعین کے ان فقرات "وَ قَدْ تَوَازَرَ عَلَيْهِ مَنْ غَرَّتْهُ الدُّنْيَا وَ بَاعَ حَظَّهُ بِالْأَرْذَلِ الْأَدْنَى وَ شَرَى آخِرَتَهُ بِالثَّمَنِ الْأَوْكَسِ وَ تَغَطْرَسَ وَ تَرَدَّى فِي هَوَاهُ وَ أَسْخَطَكَ وَ أَسْخَطَ نَبِيَّكَ وَ أَطَاعَ مِنْ عِبَادِكَ أَهْلَ الشِّقَاقِ وَ النِّفَاقِ وَ حَمَلَةَ الْأَوْزَارِ الْمُسْتَوْجِبِينَ النَّارَ فَجَاهَدَهُمْ فِيكَ صَابِراً مُحْتَسِباً حَتَّى سُفِكَ فِي طَاعَتِكَ دَمُهُ وَ اسْتُبِيحَ حَرِيمُهُ" یعنی آپ علیه السلام پر ان لوگوں نے ظلم کرنے میں ایکا کیا جنہیں دنیا نے دھوکہ دیا تھا جنہوں نے اپنے نفس کو معمولی چیز کے بدلے بیچ دیا اور اپنی آخرت کے لیے گھاٹے کا سودا کیا انہوں نے سرکشی کی اور لالچ کے پیچھے چل پڑے انہوں نے تجھے اور تیرے نبی(ص) کو ناراض اور غضب ناک کیا انہوں نے تیرے بندوں میں سے انکی بات مانی جو سرکش اور منافق تھے کہ اپنے گناہوں کا بوجھ لے کرجہنم کی طرف چلے گئے لہذا امام حسین علیہ السلام نے تیری خاطر ان سے جہاد کیا یہاں تک کہ تیری اطاعت میں انکا خون بہا اور حرمت پامال ہوئی۔ بیان کیا کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے دنیا کو مخاطب کر کے فرمایا "غری غیری" میرے علاوہ کو دھوکہ دے۔
کربلا میں جو لوگ امام حسین علیہ السلام کو قتل کرنے کے لئے آئے تھے انھوں نے جہاں بغض علی علیہ السلام کا اقرار کیا وہیں وہ دنیا کے طالب بھی تھے جیسا کہ ان فقرات میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے قاتلین حسین کے اصلی چہرے کو دنیا کے سامنے پیش کر دیا کہ وہ ملاعین خواہشات دنیا کے اسیر اور دنیا کی رنگینیوں کے فریب خوردہ تھے۔ انھوں نے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کو ناراض کیا۔ وہ جس یزید پلید کو اپنا امیر مانتے تھے وہ اللہ کا نافرمان اور منافق تھا۔ وہ سب جہنم واصل ہوئے۔ آج بھی اگر کہیں یزید پلید کی حمایت ہو رہی ہے تو یہ سب بھی خواہشات دنیا کے اسیر اور دنیا کے فریب خوردہ ہیں۔ اور جس طرح کل کے یزید و یزیدی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوئے بلکہ ذلیل و رسوا ہوئے اور ابدی لعنت انکا مقدر بنی اسی طرح آج کے بھی ان یزیدیوں کے مقدر میں ذلت و رسوائی اور ابدی لعنت ہے۔