حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لکھنؤ/ عموماً پوری دنیا نئے سال کی تقریبات میں محو رہتی ہے لیکن گذشتہ برس کی طرح امسال بھی عاشقان رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ اور اہلبیت طاہرین علیہم السلام کے لئے غم والم کا سورج طلوع ہوا۔٢٠٢٠ میں مختلف علمی شخصیات نے داغ مفارقت دیا جن کا غم ابھی مندمل بھی نہیں ہو پایا تھا کہ ٢٠٢١ کے پہلے ہی دن فیلسوف یگانہ،عالم فرزانہ ،حامیٔ ولایت فقیہ،مدافع نظام اسلامی علامہ شیخ محمد تقی مصباح یزدی نے دار فانی کو وداع کہا۔ علامہ مرحوم کی دعائے صحت کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ اچانک سوشل میڈیاپر آپ کی خبر رحلت نے عاشقان علوم اہلبیت اطہار علیہم السلام کو سوگوار کر دیا۔
ایران اسلامی کے نامور عالم جناب مصباح یزدی کی ر حلت کے بعد مولانا سید حیدر عباس رضوی نے اپنے تعزیتی کلمات میں بیان کیا کہ ٢٠٠٣ میں جب علامہ مرحوم نے گوناگوں مذاہب والے ملک(ہندوستان) کا سفر کیا تو دوران سفر آپ نے شہر علم وادب لکھنؤ خود کو پہنچایا اور اپنا قیمتی وقت ایشیا کے منفرد تعلیمی وتربیتی مرکز ''جامعہ امامیہ تنظیم المکاتب''کو دیا۔آپ ہی کے بدست جامعہ میں نمایاں کامیابی پر لوح تقدیر ملی۔اور پھر حوزۂ علمیہ قم پہنچنے کے بعد مدتوں حسینیۂ امام خمینی میں ہر چہارشنبہ کو ہونے والے درس اخلاق میں شرکت کا شرف رہا۔
علامہ مرحوم کا مختصر زندگی نامہ بیان کرتے ہوئے مولانا حیدر عباس نے بیان کیا کہ آپ کی ولادت ١٣٥٣ ہجری قمری میں صوبۂ یزد کے ایک متدین گھرانہ میں ہوئی۔مالی مشکلات سے نجات پانے کی خاطر آپ کی والدہ گرامی نے گھر کے حدود میں رہ کر جوراب بنائے جنہیں آپ کے پدر گرامی دوکانوں پر فروخت کرتے اور اس طرح طیب وطاہر اور رزق حلال گھر کے حدود میں پہنچتا۔وطن میں ہی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ حوزۂ علمیہ نجف اشرف تشریف لے گئے ۔لیکن مالی مشکلات کے سبب آپ کا یہ تعلیمی سفر ایک سال سے زیادہ نہ رہ سکا اور آپ نے حوزۂ علمیہ قم المقدسہ کا رخ کیا جہاں معمار انقلاب امام خمینی اور مفسر قرآن کریم علامہ طباطبائی کی شاگردی نصیب ہوئی۔علامہ طباطبائی نے آپ کی علمی لیاقت وشایستگی کو دیکھتے ہوئے فرمایا تھا:''میرے شاگردوں کے درمیان مصباح ایسے ہیں جیسے دوسرے پھلوں کے درمیان انجیر کہ انجیر میں کوئی بھی اضافی یا پھینکے جانے والی چیز نہیں ہوتی۔''مذکورہ اساتذہ کے علاوہ آپ نے پندرہ برس تک عارف کامل جناب آیت اللہ شیخ محمد تقی بہجت کے درس فقہ میں شرکت فرمائی۔شہید بہشتی،شہید باہنر اور آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی کی رفاقت میں آپ نے متعدد علمی کارنامی انجام دئیے۔درس وتدریس آپ کا پسندیدہ مشغلہ تھا لیکن اسلامی انقلاب سے قبل آپ کی سیاسی فعالیت سے بھی چشم پوشی ممکن نہیں ہے۔اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد متعدد اداروں کی سرپرستی فرمائی جن میں ''در راہ حق''،''باقر العلوم علمی وثقافتی ادارہ''سمیت ''امام خمینی تعلیمی اور تحقیقی سینٹر''کی سربراہی خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔انداز بیان مسحور کن تھا ۔
مولانا سید حیدر عباس رضوی نے اپنے بیان میں اضافہ کیا کہ علم،شعور اور بصیرت کے فروغ کی خاطر آپ نے درجنوں کتابیں اور مقالات تحریر فرمائے جو مکتب تشیع کی شناخت کا بہترین ذریعہ ہیں ۔آپ کی کتابیں فرزندان توحید کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔عشق حسینی سے سرشار علامہ مصباح یزدی کی کتاب آذرخش کربلا نے غیر معمولی شہرت پائی ۔اس کے علاوہ آفتاب ولایت،آموزش عقاید،آموزش فلسفہ،آیین پروز،اخلاق اسلامی،اخلاق در قرآن،انسان شناسی،انسان سازی در قرآن ،انقلاب اسلامی بہ سوی او،بزرگ ترین فریضہ،بہ سوی تو،بہ سوی خودسازی،بھترین ھا و بدترین ھا از دیدگاہ نھج البلاغہ،پند ھای الھی،پند جاوید(٢جلد)،پندھای امام صادق،پیام مولا از بستر شھادت،تعلیقة علیٰ نھایة الحکمة،تھاجم فرھنگی ،جامی از زلال کوثر وغیرہ متعدد مرتبہ اشاعت کے مرحلے سے گذر چکی ہیں ۔اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد پوری دنیا میں حقیقی اسلام کی تصویر دنیا تک پہنچ رہی ہے اور یقینا علامہ مصباح کا اس میں غیر معمولی کردار نظر آتا ہے۔
وقار تشیع،رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای دام ظلہ الوارف کے یکی بعد دیگرے رفقاء وپشت پناہ کی رحلت سخت منزل امتحان ہے۔٨٥برس میں رخصت ہونے والے علامہ مصباح اپنے آثار وبیانات کے سبب تا دیر یاد رکھے جائیں گے۔قارئین سے سورۂ فاتحہ کی گزارش ہے۔