حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تقریباً نصف صدی سے، صہیونیت امریکہ کے توسط سے مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے اور القدس پر قابض حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے عرب ممالک میں اپنی من پسند اور کٹھ پتلی حکومتوں کے ذریعے دعوت دینے میں مصروف عمل ہے۔دنیا کے تمام سیاسی تجزیہ کاروں اور مزاحمت کے حامی گواہ ہیں ، ایران گذشتہ 42 برسوں سے عالمی سطح پر فلسطینی مزاحمتی محاذ کا سب سے بڑا حامی رہا ہے۔
انقلاب اسلامی ایران کی سالگرہ اور "عشرہ فجر" کی مناسبت سے ، "عالمی ادارہ محبان اہل بیت علیہم السلام" نے مزاحمتی علماء کونسل کے سکریٹری جنرل اور ممتاز سنی عالم دین امام جمعہ شہر صیدا لبنان شیخ ماہر حمود سے ایک انٹرویو لیتے ہوئے عالمی سطح پر اقوام عالم کی صورتحال پر ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی ہے۔
انٹرویو کا تفصیلی متن مندرجہ ذیل ہے۔
السلام علیکم
۱: القدس اور فلسطین پر قابض صہیونی حکومت کے ساتھ کچھ عرب ممالک کے غدارانہ تعلقات کے بعد، جناب عالی! عالم اسلام کی صورتحال کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
شیخ ماہر حمود: میری نظر میں ، کچھ عرب ممالک اور صہیونی حکومت کے مابین تعلقات کو معمول پر لائے جانے کے بعد ، عالم اسلام میں کوئی نئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے ، کیونکہ بنیادی طور پر ماضی میں ان ممالک کے اس ناجائز حکومت کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رہے ہیں اور یہ ممالک مسئلہ فلسطین سے کبھی بھی مخلص نہیں تھے۔ یہی حکومتیں جسے آپ آج دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لا رہی ہیں ، کل تک انہوں نے فلسطین کے خلاف پس پردہ سازشیں کیں ہیں ، لیکن اپنے مذموم عزائم کا مظاہرہ نہیں کر رہی تھی۔
آج ، منافقین نے اپنے اصلی چہرے کو نمایاں کیا ہے اور انہوں نے صہیونی حکومت اور امریکہ سے اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کیا ہے۔اتفاقاً ، میں سمجھتا ہوں کہ ان ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کا اعلان کر کے بہت اچھا کام کیا ہے،کیونکہ وہ اب مسلم قوموں سے جھوٹ نہیں بول سکتے کہ ہم فلسطین اور عرب ممالک کی حمایت کرتے ہیں۔ ہاں !یقیناً، جب لوگوں نے اس واضح غداری کو دیکھا ، تو عالم اسلام میں ایک جذباتی جھٹکا لگا ، لیکن مجھے یقین ہے کہ اس واقعے کا صدمہ جلد ہی ختم ہوجائے گا اور اقوام عالم اسے بھول جائیں گی۔
مجھے یقین ہے کہ ٹرمپ کی برطرفی کے ساتھ ہی، ان میں سے کچھ ممالک جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا اعلان کیا ہے ، وہ اپنی سابقہ حالت پر آسکتے ہیں ، اور میری نظر میں یہ بات واضح و عیاں ہے کیونکہ سب ان تمام اقدامات (صدی کی ڈیل) کو ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین کے انتخابی پروگراموں کا ایک جزو سمجھتے ہیں۔میں عقیدہ اور مذہبی نقطہ نظر سے ، یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان غدار حکومتوں کو کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوگی ۔اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لا کر ، انہوں نے دنیا میں اپنا مقام بڑھانے اور خود کو اہمیت دینے کی کوشش کی ، لیکن قرآن مجید کا ارشاد ہے: "إِنَّ الَّذِینَ یُجَادِلُونَ فِی آیَاتِ اللَّهِ بِغَیْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ إِنْ فِی صُدُورِهِمْ إِلا کِبْرٌ مَا هُمْ بِبَالِغِیه."اس آیہ مبارکہ کی بنیاد پر ، جو لوگ خدا کی آیات سے مجادلہ کرتے ہیں وہ کبھی بھی اپنے دلی عزائم حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے اور ہمیشہ شکست سے دوچار رہیں گے۔
ان ممالک کے اقدامات اسرائیل کی تباہی کے خلاف مزاحمت اور خدا کی مرضی پر اثر انداز نہیں ہوں گے ، لیکن ہم جلد ہی اس ناجائز حکومت کی مکمل تباہی کا تاریخی لمحہ دیکھیں گے۔
۲: آپ کی رائے میں ، اگر پیغمبر اسلام (ص) اور اہل بیت (ع) آج ہمارے درمیان موجود ہوتے، تو مسئلہ فلسطین اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر کیا ہوتا؟
شیخ ماہر حمود : اگر آج پیغمبرِ اِسلام صلی اللہ علیہ والہ و سلم اور اہل بیت (ع) ہمارے درمیان ہوتے ، تو وہ بلاشبہ مسلمانوں سے مزاحمت و مقاومت کے ساتھ اسلامی مقدسات کے دفاع کا مطالبہ فرماتے۔ اگر یہ ہستیاں ہوتیں تو ، اس نکتے کی طرف توجہ مبذول کراتیں کہ جب تک بنی اسرائیل اپنے افکار پر اصرار کرتے ہیں اور توبہ نہیں کرتے ہیں ، جیسا کہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے"مغضوب علیهم" ہوں گے اور جیسا کہ خدا نے وعدہ کیا ہے کہ "فإذا جاء وعد الآخرة جئنا بکم لفیفا"زمین پر بنی اسرائیل کی موجودگی عارضی ہے۔
۳: جناب عالی اسلامی مزاحمتی رہنماؤں کے ساتھ ہمیشہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام اور مختلف قومیتوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں،براہ کرم!یہ فرمائیں کہ اہل بیت (ع) کا، مزاحمتی علمائے کرام کی نگاہ میں کیا مقام ہے؟
شیخ ماہر حمود :جیسا کہ خداوند آیت کریمہ میں ارشاد فرماتا ہے:"قل لا أسألکم علیه أجرا إلا المودة فی القربی"اہل بیت (ع) کی محبت مذہبی واجبات میں سے ایک ہے۔
اہل بیت (ع) کی محبت کا تذکرہ مختلف اسلامی فرقوں کی متعدد احادیث میں موجود ہے اور اہل سنت پوری طرح سے اس چیز پر یقین رکھتے ہیں۔ممکن ہے ہمارے کچھ چھوٹے معاملات ایک دوسرے سے مختلف ہوں، لیکن اصل اصول ایک ہی ہے وہ ولایت ، محبت اور اطاعت ہے اس معاملے میں اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے۔میرا ایمان ہے کہ اہل بیت (ع) کی محبت،مسلمانوں کے اتحاد و وحدت کے لئے ایک بہت ہی مضبوط اور عمدہ محور ثابت ہوسکتی ہے۔
۴: مکتب اہل بیت (ع) مزاحمتی محاذ کو عالمی استکبار کا مقابلہ کرنے کے لئے کیا درس دیتا ہے؟
شیخ ماہر حمود :پیغمبر اکرم (ص) کے اہل بیت (ع) اور ان کے اصحاب ہمیشہ فتوحات ،جنگوں اور جہاد کے میدانوں میں موجود رہتے تھے، بالکل اسی طرح علمائے اسلام اور فقہاء نے ہمیشہ ظالموں اور غاصبوں کے خلاف بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا ہے اور تاریخ ان کی صلیبی جنگوں میں بہادری کی گواہی دیتی ہے۔ ماضی کے مسلمانوں نے ظلم و ستم کے خلاف بہت ہی شاندار جنگ لڑی ہے۔ اگر آپ عالم اسلام کے بزرگ علمائے کرام کی زندگیوں پر نگاہ ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے بیشتر نے اپنی زندگی جیلوں میں بسر کی ہے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور جہاد فی سبیل للہ جیسے الہی فرائض کو ترک کرنے سے انکار کردیا ہے۔ یہ تاریخ اس قدر روشن اور لمبی ہے کہ محدود وقت کی وجہ سے میں، ان میں سے ہر ایک کا ذکر نہیں کرسکتا ، لیکن مثال کے طور پر ، عصر حاضر کے اہل سنت سے تعلق رکھنے والے ان تین شخصیات اور رہنماؤں کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں کہ جنہوں نے امام حسین (ع) کو نمونہ عمل قرار دیتے ہوئے، سید الشہداء (ع)کی مانند جام شہادت نوش کیا۔
1۔ شامی فوج کے کمانڈر شہید یوسف العظمہ ہیں۔ 1920ء میں ، جب ان کا اپنی فوج کے ساتھ فرانسیسی غاصبوں کا سامنا ہوا ، تو انہوں نے اپنی افواج کے ساتھ آخری لمحے تک ڈٹ کر مقابلہ کرنے اور دشمن کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا بالکل امام حسین علیہ السلام کی طرح محاصرہ کیا گیا اور اپنے خون کے آخری قطرہ تک دشمنوں کے خلاف جنگ کی اور آخر میں شہید ہوگئے۔
2۔ شہید عزالدین القسام ہیں، جو اپنے چند افراد کے ساتھ برطانوی حملہ آور افواج کے خلاف میدان جنگ میں اترے اور فلسطین میں مظلومیت کے ساتھ شہید کردیا گیا۔
3۔ شہید عبدالقادر حسینی ہیں، جس نے اپنے چند مجاہدین کے ساتھ صہیونیوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے قابضین کو کافی نقصان پہنچایا اور فتوحات بھی حاصل کر لی ان کو القدس کے قریب شہید کردیا گیا۔ شہید عبدالقادر حسینی حسب و نسب کے اعتبار سے امام حسین (ع) کی نسل سے تھے اور امام حسین (ع) کی طرح شہید ہوئے تھے۔
وہ اپنے دور میں افرادی قوت کم ہونے کے باوجود مشرقی یروشلم کو آزاد کرانے میں کامیاب ہوئے اور اگر ان کی قربانیاں نہ ہوتی تو مشرقی یروشلم کبھی بھی آزاد نہیں ہوتا۔
میں اس بات پر تاکید کرتا ہوں کہ محبت اہل بیت (ع) کا تعلق کسی خاص گروہ یا مذہب سے نہیں ہے ، بلکہ تمام مسلمان اس مسئلے کو مذہبی فریضہ کے طور پر مانتے ہیں ، اور مخلص لوگ،رسول خدا (ص) اور اہل بیت (ع) کے مکتب فکر سے اپنے طرز زندگی کے اصولوں کو لیتے ہیں اور اہل بیت (ع) کا درس مزاحمت و مقاومت کے سوا کچھ نہیں ہے۔
۵:حضرتعالی، کچھ عرب ممالک اور صہیونی حکومت کے مابین تعلقات معمول پر لائے جانے کے بعد، عالم اسلام میں پیدا ہونے والے بحرانوں سے نکلنے کے لئے کیا راہ حل پیش کریں گے؟
شیخ ماہر حمود :صدی کی ڈیل کا مقابلہ کرنا صرف صہیونیوں کے خلاف مزاحمت کے ذریعے سے ہی ممکن ہے ، جس طرح عراق میں مزاحمت، امریکی قابضین کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوئی، اسی طرح صہیونی حکومت کے خلاف بھی مسلمانوں کو اس راستے پر چلنا ہوگا۔ مسلمان پہلے ہی فرانسیسیوں ، برطانویوں اور اٹلی کے خلاف شاندار جنگ لڑ چکے ہیں۔ شہید عمر مختار نے بیس سال تک لیبیا میں مزاحمت کی لیکن جنایت کاروں کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔ مصر ، عراق ، شام اور لبنان میں بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں۔ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ مزاحمت و مقاومت کا ہمیشہ اچھا نتیجہ رہا ہے۔
۶: انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کو 42 برس ہو چکے ہیں۔جناب عالی بین الاقوامی سطح پر، ایران کی کارکردگی کو کیسے دیکھتے ہیں؟
شیخ ماہر حمود : جی! میں ایران کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھنا اپنے اوپر واجب سمجھتا ہوں۔ ایران نے مزاحمت و مقاومت کی حمایت کرنے کے جرم میں ایک انتہائی سخت اور مجرمانہ معاشی محاصرے کو برداشت کیا، ہمیشہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ مزاحمت کی حمایت کی ہے۔ دنیا کے ظالم حکمرانوں نے جمہوریہ اسلامی ایران کی مظلوموں اور مزاحمتی رہنماؤں کی حمایت کرنے کی وجہ سے ہمیشہ اس نظام کے خلاف جھوٹے الزامات عائد کیے ہیں۔ دشمنوں نے ہمیشہ ملت اسلامیہ ایران کی صفوں میں تفرقہ ڈالنے کیلئے ایرانی عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ مزاحمت و مقاومت کے لئے ایران کی امداد، ایرانی عوام کے خلاف ان کی جابرانہ پابندیوں کے بجائے معاشی پریشانیوں کا سبب بنی ہے۔ ایران کے دشمنوں نے ملت ایران کے خلاف کسی قسم کی ظالمانہ اور شیطانی پابندیاں سے بھی دریغ نہیں کیا ہے، لیکن پھر بھی وہ کہتے ہیں کہ چونکہ ایران مزاحمت و مقاومت کی مدد کرتا ہے ، لہذا ایران کا پیسہ ختم ہوگیا ہے۔ میں اسلامی جمہوریہ ایران کی دل کی گہرائیوں سے تعریف کرتا ہوں اور میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو دنیا کے مظلوموں کی حمایت میں اسلام کے دشمنوں اور جابروں کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کر رہا ہے۔
۷: جناب شیخ صاحب! سردار الحاج قاسم سلیمانی کی برسی کو چند دن گزر چکے ہیں۔ان کی شخصیت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
شیخ ماہر حمود : در حقیقت ، سردار سلیمانی کی شہادت سے مزاحمت و مقاومت کے محور کو بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ شہید قاسم سلیمانی نہ صرف ایرانی شہید ہیں بلکہ فلسطین ، لبنان اور شام کے بھی شہید ہیں۔ الحاج قاسم سلیمانی امت اسلامیہ کے شہید ہیں کیونکہ انہوں نے اسلام کے پرچم کو سر بلند کیا اور فلسطین کا دفاع کیا۔ہمیں الحاج قاسم سلیمانی کی شہادت پر نہایت ہی افسوس اور دکھ ہوا لیکن امید ہے کہ بہت جلد ان شہداء کے خون کی بدولت ہمیں بہت بڑی کامیابی حاصل ہو گی۔