حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران اور پاکستان کا پہلا سائبر اسپیس اجلاس بدھ کے روز، دونوں ممالک کے ممتاز سفارتکاروں، ایوان صنعت و تجارت کے عہدیداروں اور مختلف تجارتی اور سرمایہ کار کمپنیوں کے نمایندوں کی موجودگی میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس کا ایجنڈا مشترکہ تجارتی تعاون کا فروغ تھا. کراچی میں منعقد ہونے والے آن لائن تجارتی مذاکرات کی جدت پر مبنی یہ تجویز، اس شہر میں تعینات ایران کے قونصلر جنرل کی طرف سے پیش کی گئی تھی۔
پاکستان میں ایران کے سفیر سید محمد علی حسینی نے آن لاین تجارتی مذاکرات کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوۓ، عشرہ فجر اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ کی مبارکباد پیش کی اور علم کی بنیاد پر معیشت کی نمو کو اسلامی انقلاب کی منجملہ برکات میں شمار کیا اور اپنے ملک کی دوسرے ممالک کے ساتھ باہمی تعاون اور تعلقات کے فروغ پر مبنی اصولی پالیسی پر زور دیا جس میں ہمسایہ ممالک اور خاص طور پر پاکستان کو ترجیحی حیثیت حاصل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے حکام دوطرفہ اقتصادی تعلقات کو 5 ارب ڈالر سالانہ کی سطح پر لانے کے لۓ کوشاں ہیں اور اسلام آباد میں سفارتخانہ اور پاکستان کے دوسرے شہروں میں موجود قونصلیٹ بیک وقت اس مقصد کے حصول کے لۓ دونوں ممالک کی تاجر برادری کے ساتھ ہر قسم کے تعاون و راہنمائی کے لۓ تیار ہیں۔
ایران میں پاکستانی سفیر رحیم حیات قریشی نے دونوں ممالک کی تاجر برادری کے درمیان بڑھتے ہوۓ رابطوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان دینی، ثقافتی اور تاریخی قربتیں اس قدر زیادہ ہیں جو تجارت کے راستے میں حائل ہونے والی کسی بھی رکاوٹ کو دور کرنے کے لۓ کافی ہیں۔ انہوں نے امریکا کی ایران کے خلاف پابندیوں کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں دونوں ممالک کے درمیان لین دین کی سہولیات کے لۓ کوشش کرنی چاہۓ۔ جبکہ دو طرفہ تجارتی تعلقات کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بینکاری کے شعبے میں تعلقات کا فقدان ہے۔ امید کرتے ہیں کہ دونوں حکومتوں کے عزم سے یہ رکاوٹ بھی دور ہو جائیگی۔
قریشی نے ایران اور پاکستان کے درمیان سرحدی تجارت کا فروغ اور ایران سے پاکستان آنے والی گیس پائپ لائن کے ذریعہ گیس کے حصول کو عمران خان حکومت کی اہم ترجیحات بیان کرتے ہوۓ مزید اعلان کیا کہ پاکستان کو سستی اور قابل اطمینان ایرانی انرجی کی ضرورت ہے۔ اسی لۓ گیس پائپ لائن کو جلد سے جلد آپریشنل ہو جانا چاہۓ.
وفاق ایوان ہاۓ تجارت و صنعت پاکستان کے صدر، ناصر حیات مگو نے بھی خطاب کیا اور ایران کے ساتھ اپنے کئی سالوں پر محیط تجارت کے تجربے کو بیان کرتے ہوۓ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی روابط کی موجودہ سطح پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ اس طرح کی جدتوں کے ذریعہ ہمیں دونوں ممالک کی تاجر برادری کے درمیان پہچان اور دوستی کو زیادہ سے زیادہ بڑہانا چاہۓ تا کہ اس طرح ہم اپنے مطلوبہ تجارتی حجم کے مقصد کو پا سکیں.
کراچی میں تعینات ایرانی قونصلر جنرل احمد محمدی نے بھی عشرہ فجر کی مبارکباد پیش کی اور کہا کہ کرونا کے پھیلاؤ کے بعد رفت و آمد کم ہونے اور بین الاقوامی نمایشگاہوں کے انعقاد میں کمی ہونے سے، قونصلیٹ نے اس کے متوازی نئے طریقوں پر کام کا آغاز کیا اور اس طرح کے تجارتی ویبنار منعقد کرنے کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر کے سب سے پہلے تہران اور کراچی چیمبر آف کامرس کے درمیان ایک تجارتی ویبنار کا انعقاد کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کئی ماہ کی مشترکہ کاوشوں اور رابطوں کے بعد آج ہم ایران اور پاکستان کے درمیان پہلے تجارتی مذاکرات کے سائبر اسپیس اجلاس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ محمدی نے مزید کہا کہ اس سائبر اجلاس کے ذریعہ مجموعی طور پر 32 ایرانی کمپنیوں کی ایک سو سے زیادہ پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ 160 مذاکراتی میٹینگز انجام پائیں گی اور یہ تمام ایرانی کمپنیاں علمی بنیادوں پر قائم ہیں اور ایرانی ایوان صدر کے علمی معاونت کے شعبہ کی بھرپور راہنمائی اور حمایت سے ان تجارتی مذاکرات میں شرکت کر رہی ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان دوسری باقاعدہ سرحدی گذرگاہ، ایران میں ریمدان اور پاکستان میں گبد کے مقام پر، محمد اسلامی ایرانی وزیر ٹرانسپورٹ اینڈ میٹروپولیٹن ڈویلپمنٹ اور پاکستانی وزیر دفاعی پیداوار زبیدہ جلال اور ان کے اعلی حکام اور داخلہ، خارجہ، انڈسٹریز اور معدنی ذخائر کی وزارتوں کے سیکرٹری صاحبان کی موجودگی میں 19 دسمتبر 2020 کو باقاعدہ سرکاری سطح پر افتتاح کر دیا گیا ہے.
اس کے ساتھ ہی اسلام آباد نے سرحدی انفراسٹرکچر کی ترقی کو اپنے ایجنڈے پر رکها ہے. اس کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے ایران کے ساتھ مزید سرحدی منڈیاں قائم کرنے کے عمل میں تیزی لانے پر زور دیتے ہوئے اس بارے ایک جامع حکمت عملی بنانے پر تاکید کی ہے.