۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
حسن نصرالله

حوزہ/ حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نےکہا کہ ایران کا اسلامی انقلاب بیالیس سال کا ہوچکا ہے اور اس کی بدولت ایران نے اتنی ترقی اور پیشرفت کی ہے کہ آج یہ ملک خطے کی ایک بڑی طاقت بن چکا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے 42 سالگرہ کے موقع پر کہا کہ ایران خطے کی ایک بڑی طاقت میں تبدیل ہوگیا ہے انقلاب اسلامی کی بدولت ایران نے مختلف شعبوں میں خاطر خواہ پیشرفت اور ترقی حاصل کی ہے۔ حزب اللہ کے سربراہ نے صیہونی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ آگ سے نہ کھیلے اور امریکہ کی نئی حکومت کو بھی وارننگ دی ہے کہ وہ داعش کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش نہ کرے۔

حزب اللہ کے سربراہ نے 14 فروری بحرین کے انقلاب اسلامی کی سالگرہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بحرین عوام نے استقلال اور آزادی کی حصول میں بیشمار قربانیاں پیش کی ہیں اور بحرین کی تحریک آزادی کے سربراہ آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کو میں سلام پیش کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں غاصب اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں شیخ راغب حرب کے مؤقف کی ضرورت ہے، ہمیں اسلامی مزاحمت کی پیشرفت کے لئے شہید عماد مغنیہ کے جذبہ فداکاری کی ضرورت ہے، ہم شہید سید عباس موسوی اور تمام شہداء کی وصیتوں کے مطابق عمل کررہے ہیں، اسرائیل کی جانب سے ملک و قوم کو درپیش خطرہ میں کسی بھی قسم کی کوتاہی نہیں کریں گے۔

سید حسن نصر اللہ نے لبنان کے داخلی امور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک گروہ کا کام صرف حزب اللہ لبنان کو گالیاں دینا اور فحش بکنا ہے اور ہم اپنے طرفداروں کو نصیحت اور وصیت کرتے ہیں کہ وہ اس گروہ کا کسی بھی صورت میں مقابلہ نہ کریں کیونکہ ان کا ہمیں گالیاں دینا ان کی ناکامی اور ہماری کامیابی کی دلیل ہے، ان کے تمام الزامات انسانی اور اسلامی اصولوں کے خلاف ہیں، ہم ہر میدان میں قوی اور مضبوط ہونے کے ساتھ مظلوم بھی ہیں اور اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ ہو مظلوموں کے ساتھ ہے، اس کا وعدہ ہر گز جھوٹا نہیں ہوسکتا۔

مزید  کہا کہ یمن کے خلاف جنگ کے تعلق سے امریکی اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تل ابیب اور ریاض کو یمن کے تعلق سے سخت تشویش ہے کیونکہ یمنی عوام نے اپنی استقامت سے ان کے سارے منصوبوں کو خاک میں ملادیا ہے۔

آخر میں کہا کہ بحرین، امارات، سوڈان اور مراکش کے ساتھ خودساختہ صیہونی ریاست کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلیوں نے اس مسئلے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے لیکن اس حوالے سے جو چیز استقامتی محاذ کے لئے اہمیت رکھتی ہے وہ ان ملکوں کے عوام سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ ان ملکوں کے حکمرانوں سے۔کیونکہ، بحرینی، سوڈانی اور علاقے کے دیگر ملکوں کے مواقف اس سلسلے میں ان ملکوں کے حکام کے مواقف سے باالکل تضاد رکھتے ہيں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .