۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
وزیر فرهنگ و ارشاد اسلامی

حوزہ/ وزیر برائے مذہبی امور ایران نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ حوزہ علمیہ بغداد نے چوتھی صدی میں مذہب تشیع کی حفاظت کی،کہاکہ حوزہ علمیہ بغداد کے دور میں شیعہ فقہ میں ایک قابل ذکر تبدیلی رونما ہوئی ، جیسا کہ علوم ادبیات اور تاریخ وغیرہ میں اس تبدیلی کو بطور خاص دیکھا جاسکتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سید عباس صالحی نے آج صبح قم میں دار الحدیث فاؤنڈیشن کے علامہ حلی کانفرنس ہال میں منعقدہ بین الاقوامی سیمینار بعنوان "آثار سید مرتضیٰ علم الہدی" کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جشن مولود کعبہ حضرت علی علیہ السلام کے موقع پر ہدیہ تبریک پیش کیا اور کہا کہ اگر ہم تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو ، مختلف ادوار میں حوزہ ہائے علمیہ نے اقدامات کیے ، آج ہم انہی حوزہ ہائے علمیہ کے مرہون منت ہیں جن میں ہم بطور خاص حوزہ علمیہ نجف کے دور کا تذکرہ کرسکتے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ چوتھی اور 5 ویں صدی ہجری میں حوزہ ہائے علمیہ جہان تشیع کے سب سے زیادہ شاندار ادوار میں سے ایک دور حوزہ علمیہ بغداد کا رہا ہے اور ان دو صدیوں نے شیعوں کی شناخت پر بہت اثر ڈالا ہے۔

صالحی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ملت تشیع کا تحفظ حوزہ ہائے علمیہ کے فرائض میں سے ایک ہے ، مزید واضح کیا کہ اس سلسلے میں ، حوزہ علمیہ بغداد   چوتھی اور پانچویں صدیوں میں منصفانہ اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے داخل ہوا اور کسی بھی قسم کی تحریف اور انحراف کی اجازت نہیں دی۔

انہوں نے عالم اسلام اور ملت تشیع کی تاریخ کو قابل ستائش قرار دیا اور کہاکہ میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ غیبت امام عصر علیہ السلام ، خاص طور پر غیبت کبری میں اہل تشیع کے لئے ایک نفسیاتی اور روحانی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ممکن تھا کہ اس دور میں اہل تشیع کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے اس سلسلے میں بھی حوزہ علمیہ بغداد اور علماء کرام نے عظیم کارنامے سرانجام دیئے اگر وہ نہیں ہوتے تو معلوم نہیں تھا کہ کیسے کیسے واقعات رونما ہوتے۔

وزیر برائے ثقافتی و اسلامی ارشادات نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں ، حوزہ علمیہ بغداد نے بہت اچھی علمی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اہل تشیع کی روحانی طور پر حفاظت کی  اور اہل تشیع کے تحفظ کے علاوہ ،سوالات اور شبہات کے جوابات دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہاکہ اس وقت بغداد طاقت ، علم اور ذوق و نظریات کا ایک عظیم مرکز تھا،ایسے ماحول میں حوزہ علمیہ بغداد  چمکتا ہوا ستارہ تھا اور شیخ طوسی ، شیخ مفید اور سید مرتضیٰ علم الہدی جیسے علمائے کرام اور معززین نے شیعہ پرچم سربلند رکھا اور واقعتاً اقلیتوں کا اکثریت پر راج تھا۔

صالحی نے زور دے کر کہاکہ سید مرتضیٰ علم الہدی کے 30 ایسے علمی آثار ہیں جو مختلف سوالوں کے جوابات پر مشتمل  ہیں اور چوتھی اور 5 ویں صدی میں حوزہ علمیہ بغداد نے شیعہ مذہب کے تحفظ کے ساتھ اس مذہب کو ترقی کے اعلیٰ مقام عطا کیا۔

انہوں نے اپنی تقریر کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس دور میں شیخ مفید اور سید مرتضیٰ علم الہدی جیسے علماء نے تشیع کے اعتقادی اصولوں کے تحت اپنے فرائض کو بخوبی نبھایا ، اس کے علاوہ ، مختلف علمی ابحاث کی نشونما حوزہ علمیہ بغداد اور اس دور کے علمائے کرام کا ایک اور عظیم کارنامہ تھا۔

وزیر ثقافت و ارشادات اسلامی  نے بیان کیاکہ حوزہ علمیہ بغداد کی فضا میں تفسیر اجتہادی تشکیل پائی اور یہ شعبہ مضبوط ہو گیا اور تفسیر اجتہادی کو ایک نئی جہت ملی اور اس کے علاوہ ، عصری تقاضوں کے مطابق فقہ پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ حوزہ علمیہ بغداد کے دور میں شیعہ فقہ میں ایک قابل ذکر تبدیلی رونما ہوئی ، جیسا کہ علوم ادبیات اور تاریخ وغیرہ میں اس تبدیلی کو بطور خاص دیکھا جاسکتا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .