۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
اسرائیل کی جانب سے مسجد اقصیٰ کا کنٹرول سعودی عرب کو دینے کا امکان

حوزہ/ اسرائیل نے مسجد اقصی کے کنٹرول کو سعودی عرب کو منتقل کرنے کے بارے میں ایک مطالعہ شروع کیا ہے ۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی سعودی عرب میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، اسرائیل نے مسجد اقصی کے کنٹرول کو سعودی عرب کو منتقل کرنے کے بارے میں ایک مطالعہ شروع کیا ہے ۔

تفصیلات کے مطابق،اسرائیل مسجد الاقصی کا کنٹرول سعودی عرب کے حوالہ کرنا چاہتا ہے اور یہ کام متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین تعلقات معمول پر لانے کے بعد سے اسرائیلی اعلی سطح کے حکام کی طرف سے خلیجی ریاستوں کے دورے کا آغاز کیے جانے پر کیا گیا ہے جس میں سب سے پہلے اسرائیلی وزیر خارجہ یائیر لاپڈ کے دو روزہ دورہ متحدہ عرب امارات کا دورہ ہے ۔

ذرائع کے مطابق،اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے قیام پر اتفاق کیا ہےجس کے مطابق اب یروشلم میں اس کے انتظام کے لئے سعودی حکومت اپنا کردار ادا کرے گی،تاہم ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ مسجد اقصیٰ کا کنٹرول اردن کے شاہ عبداللہ دوم کے ہاتھ ہی میں رہے گا لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ سعودی عرب کے علاوہ کوئی اور ملک بھی بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل ہوگا یا نہیں۔

یادرہے کہ اس سے قبل متحدہ عرب امارات کے اپنے پہلے سرکاری دورے پر اسرائیلی وزیر خارجہ نے اعتراف کیا کہ یروشلم میں تناؤ بڑھتے ہی پورے خطے میں تناؤ گونج اٹھے گا، یئر لاپڈ نے دبئی میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرتا ہے کہ یروشلم میں کشیدگی سے پورے خطے کو خطرہ ہے، انہوں نے خلیجی عرب ریاستوں میں سے ایک کے دو روزہ سفر جسے انہوں نے تاریخی قرار دیا، کے آخری مرحلے میں منتخب غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کی ۔

تاہم متحدہ عرب امارات کے ذرائع ابلاغ میں اس ملاقات کی وسیع پیمانے پر اطلاع نہیں دی گئی اور لاپڈ نے ابو ظہبی کے ولی عہداور اس ملک کے اصلی حاکم شہزادہ محمد بن زاید آل نہیان سے ملاقات نہیں کی بلکہ وفد کے سرکاری میزبان شیخ عبد اللہ بن زید آل نہیان سے ملاقات کی ۔

لاپڈ نے ابوظہبی اور دبئی میں اسرائیلی قونصلخانے بھی کھولےیادرہے کہ یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جبکہ گذشتہ مئی میں غزہ کی پٹی پر ہونے والے 11 روزہ تباہ کن حملوں کے نتیجہ میں 66 بچوں سمیت 250 سے زیادہ فلسطینی شہید ہوئے جبکہ اسرائیل میں دو بچوں سمیت 13 افراد ہلاک ہوگئے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .