۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
مکتبۃ المذاہب العالمیہ العامہ

حوزہ/ بلتستان کے علاقے سکردو کے قلب مقام یاد گارچوک پر ایک نایاب علمی و ثقافتی مرکز جسے «مکتبۃ المذاہب العالمیہ العامہ» کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،بلتستان کی سرزمین ادب سے معروف ہے، یہاں کی تہذیب و ثقافت میں علم و علماء کو بنیادی مقام حاصل ہے۔بلتستان کے علماء نے اپنے علم وعمل کے ذریعے بلتستان کے باسیوں میں اسلامی اقدار کو پروان چڑھایا۔اشاعت دین،تدریس و تبلیغ کے ساتھ تحقیق اور فروغ علم میں نمایاں کردار ادا کرنے والے مختلف ادارے اور علمی و ادبی شخصیات بلتستان کی پہچان ہیں۔

آج ہم آپ سے ایک ایسے ادارے کا تعارف کرانے جا رہے ہیں جو سکردو کے صدر مقام پر واقع ہے، جسے «مکتبۃ المذاہب العالمیہ العامہ» کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کتابخانہ کے مسئول شیخ ذاکر فخر الدین سے حوزہ نیوز نے لائبریری کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔

شیخ ذاکر فخر الدین نے اس مرکز اورلائبریری کی تاریخ کے حوالے سے کہا کہ نجف اشرف میں بعض علما نے «تعاون دینی»کے نام سے ایک ادارہ کا قیام عمل میں لایا۔اور 1977میں اس ادارے نے شریعت کمیٹی کے ذریعے بلتستان میں فعالیتوں کاآغاز کیا۔

اس کے بعد شیخ علی فخر الدین اور شیخ حسن فخر الدین نے اس زمین کو دینی مرکز کے لیےلیا۔بھٹو کے دور تک مالیہ بھی دیتے رہے۔پھر کچھ وجوہات کے ذریعے لائبریری کا قیام عمل میں لایاگیا۔اور شریعت کمیٹی لوگوں کے مسائل اسی مرکز کے ذریعے انجام دیتی تھی۔ساتھ ہی ایرانی اسلامی فلمیں بھی جوانوں کو دکھائی جاتی تھی۔ بعد میں شیخ حسن فخر الدین نے اپنی ذاتی کتابیں اس لائبریری میں رکھی،ایران،عراق کے علاوہ پنجاب اور کراچی کے اہل سنت مراکز سے مناظراتی اور تقابل ادیان کی کتابیں جمع کیں،نماز وروزہ اجارہ کرکے کتابیں خریدتے تھے، یوں اس کتابخانہ میں مختلف مذاہب کی کتابوں کا بڑاذخیرہ موجود ہے، جن میں مرحوم شیخ حسن فخر الدین کی کتابوں کے قلمی نسخے قابل ذکر ہیں، جن کو مرحوم نے مختلف موضوعات پر تالیف کی ہیں۔

شیخ ذاکر فخر الدین نے مزید کہا کہ 2017 میں لائبریری کی ذمہ داری مرحوم فخر الدین نے میرے حوالے کی ۔اس سلسلے میں آغا عباس رضوی اور علامہ شیخ حسن جعفری سے ملاقات کی تو انہوں نے اس کو چلانے کے لیے مجھے ہی معین کیا۔2019 کو نچلی منزل پر دکانیں بنائی اور اوپر کی منزل میں لائبریری کے ساتھ مزیدکمرے مطالعہ واستر احت کے لیے تیار کیا ہے۔مزید تعمیر کاکام جاری ہے۔

اس لائبریری کی فعالیت کے حوالے سے شیخ ذاکر حسین نے کہا کہ لائبریری کی فعالیتوں میں اب تک مختلف مسائل کے باجود طلبا کومطالعہ کی سہولیت موجود ہے۔بہت سے طلبا یہاں مطالعہ کرنے آتے ہیں۔ہم نے ایک کتب میلہ میں شرکت کی ہے۔آئندہ خود اپنی طرف سے کتب میلہ کا انتظام کی کوشش میں ہے۔

شیخ ذاکر فخر الدین نے ایک اہم مشکل اور المیہ کی جانب اشارہ کیا کہ اس عظیم علمی مرکز اور اسلامی ورثہ کی جانب معاشرہ خصوصا اہل علم کی طرف سے توجہ اور تعاون نہیں۔اگر اہل علم کاتعاون ہو تویہ مرکز معاشرہ خصوصا طلبا،محققین اور اہل مطالعہ کے لیے انتہائی اہم ومفید ادارہ ہے۔ہم چاہتے ہیں۔اہل مطالعہ کے لیے مزید سہولتیں فراہم کریں۔تاکہ معاشرہ کے شعور وآگاہی میں اضافہ ہو۔

لائبریری کے انچارچ ارشد اخونزادہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گرچہ لائبریری عوامی سطح پر مشہور نہیں ۔لیکن اسٹوڈنٹس کی بڑی تعداد یہاں مطالعہ کرنے یہاں آتے ہیں۔اس میں موجود کتابوں کا موضوع کے لحاظ سے بھی ترتیب کام جاری ہے۔ہم نے مطالعہ اور لائبریری کی جانب ترغیب کے لیے بھی اس کے تعار ف کا سلسلہ شروع کیاہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .