۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
شاکر علی

حوزہ / غلام محمد شاکری صاحب نے حالیہ واقعات کے تناظر میں " امام خمینی (رہ) اب بھی زندہ ہے" کے عنوان پر ایک تحریر لکھی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، غلام محمد شاکری صاحب نے حالیہ واقعات کے تناظر میں " امام خمینی (رہ) اب بھی زندہ ہے" کے عنوان پر ایک تحریر لکھی ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

سلمان رشدی، انگریزی نژاد ہندوستانی مصنف، جو کہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا، رشدی نے 1988ء میں ایک کتاب تحریر کی جس میں پیغمبر اسلام (ص) اور ان کے صحابہ کرام اور ازواج مطہرات کے کردار کا مذاق اڑایا اور اس کتاب میں رشدی ملعون نے قران مجید کو پیغمبر اکرم (ص) کے اپنے افکار اور خیالات کا مجموعہ قرار دیا اور جھوٹی روایتیں بیان کر کے دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کی۔ رشدی کا اس کتاب کے لکھنے کا مقصد اپنے یورپی آقاؤں کو خوش کرنے کے ساتھ ساتھ یورپ اور دنیا کے لوگوں میں پیغمبر اسلام (ص) کی حیثیت کو خراب کرنا تھا۔

برطانوی حکومت نے سرکاری طور پر رشدی کی حمایت کی اور اس کی کتاب "آیات شیطانی" کی اشاعت پر پابندی کے لیے مسلم انجمنوں اور مسلمانوں کے گروپوں کی قانونی درخواست کو مسترد کر دیا۔وقت کے برطانیہ کے وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر نے کہا: " توہین کے خلاف، قوانین، صرف عیسائیت پر لاگو ہوتا ہے۔" اس شیطانی کتاب کی اشاعت کے خلاف مختلف ممالک میں زبردست احتجاج ہوا اور مختلف ممالک میں متعدد جانیں ضائع ہوگئیں۔

ان واقعات اور مختلف ممالک میں ہونے والے مظاہروں کے بعد امام خمینی (رح) نے 14 فروری 1988ء کو سلمان رشدی کے واجب القتل ہونے کا تاریخی حکم جاری کیا اور اعلان کیا کہ تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ سلمان رشدی اور اس کی کتاب کے ناشرین جہاں نظر ائیں انہیں قتل کردیں۔ اگر کوئی رشدی کے قتل کے کوشش کرتے ہوئے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو وہ شہید ہو گا۔

اگرچہ اس تاریخی حکم پر اس وقت کے امریکی صدر کے والد جارج بش اور یورپی حکومتوں نے اس فتوی کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ یہاں تک کہ بعض یورپی ممالک نے اپنے سفیروں کو تہران سے واپس بلا لیا اور تہران کو سخت سیاسی اور اقتصادی پابندیوں کی دھمکیاں دیں لیکن اس تاریخی فتوے نے عالم اسلام میں نئے روح پھونک دی اور اس فتوے کو عالم اسلام میں زبردست پزیرائی ملی اور یہ فتوا دنیا بھر کے مسلمانوں میں تحریک اور بیداری کا باعث بنا۔

رشدی کی حفاظت کا خرچہ برطانوی حکومت نے ادا کیا، اسے 1998ء تک انتہائی سخت حفاظت میں رکھا اور برطانوی پولیس سلمان رشدی کی حفاظت کے لیے سالانہ ایک ملین ڈالر خرچ کرتی تھی۔ اس لیے برطانوی ٹیکس دہندگان نے اس پر احتجاج کیا کچھ برطانوی سیاستدانوں نے اعلان کیا: "سلمان رشدی برطانوی ٹیکس دہندگان کے لیے ایک مہنگا بوجھ ہے"۔

رشدی اپنی یادداشتوں میں کہتے ہیں: ’’یہ اچھا احساس نہیں تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں ایک مردہ آدمی ہوں... اس وقت میرے لیے باڈی گارڈز کے بغیر چلنا، شاپنگ پر جانا، اپنے خاندان سے ملنا، ہوائی جہاز میں سفر کرنا یہ سب کچھ ناممکن تھا۔”

اسی طرح امام خمینی (رہ) کا سزائے موت کے فتوا، اس شخص کو اور اس کے حامیوں کو مہنگی پڑا اور اس کی زندگی کے تین عشرے مشکل سے گزرے! مسلم نوجوانوں (شیعہ اور سنی) نے اس تاریخی فتوا کو جامہ عمل پہنانے کے لیے اس پر کئی بار حملہ کیا اور ہر بار وہ بچ گیا! اس ہتاک کو درس عبرت دینے اور قتل کرنے سے زیادہ اہم مغربی حکومتوں کا اس "فتویٰ" سے خوفزدہ ہونا تھا۔انگریزوں کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے بھی انگریزوں نے وقت کے شیعہ فقیہ مرزا شیرازی کے تاریخی فتوے کا کڑوا ذائقہ چکھ رکھا تھا اور نتیجہ دیکھ لیا تھا!(ایرانی حکومت اور انگریزوں کے درمیان طے شدہ معاہدے کے تحت 50 سال تک تمباکو کے تمام ملکی اور غیر ملکی لین دین کا استحقاق ٹالبوٹ اور اس کے ساتھیوں کو دیا گیا تھا۔ جس کی بناء پر شیخ مرزا شیرازی نے تمباکو کے حرمت پر فتوی دیا۔ اس فتوی کا اثر یہاں تک ہوا کہ ناصر الدین شاہ کے دربار کی عورتوں نے بھی قلیون اور چلم کو توڑ دیا اور شاہ نے خوف سے اس معاہدہ منسوخ کر دیا۔)

اس بار سلمان رشدی کے معاملے میں مسلم اقوام کا احتجاج رشدی کے خلاف ہونے کی بجائے برطانوی اور امریکی حکومتوں کے خلاف ختم ہوا۔ ہر مسلمان کی طرف سے اس حکم کا نفاذ خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ امام خمینی (رہ) ولی امر مسلمین اور امت کے امام ہونے کے ناطے اس کا حکم ایسے پڑے نہیں رہنا چاہئے تھا اور اس کا نتیجہ ضرور نکلنا چاہیے تھا۔

امام خمینی کے حقیقی جانشین اور رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ہمیشہ امام (رح) کے فتویٰ کے نفاذ کی حمایت کی ہے اور فرمایا: "امام نے ایک تیر چلایا ہے اور انہوں نے اچھی طرح نشانہ لیا ہے اور یہ تیر اس وقت تک نہیں گرے گا جب تک وہ نشانے پر نہ لگے۔ یہ تیر ایک دن نشانے پر لگے گا۔"

اب سلمان رشدی پر قاتلانہ حملے کی خبر شائع ہوئی ہے۔ بظاہر، اس پر چاقو سے حملہ کیا گیا جب وہ نیویارک میں ایک اجتماع سے خطاب کرنے کا ارادہ کر رہا تھا۔ امید ہے وہ اپنے انجام کو پہنچے گا۔

رشدی ایک ایسی حالت میں اپنی ذلت آمیز انجام کو پہنچنے والا ہے جب امریکہ کے بزدل فوجیوں نے عراق کے سرزمیں پر ایرانی قدس فورس کے کمانڈر حاج قاسم سلیمانی کو شہید کیا۔ جس کے عکس العمل میں وقت کے ولی امر ا لمسلمین نے قاسم سلیمانی کے قتل میں ملوث افراد سے انتقام لینے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ اب رشدی پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد ایرانیوں کو مطلوب قاسم سلیمانی کے قتل میں ملوث افراد کو اپنے گھر کے اندر بھی سکون میسر نہیں ہوگا اور کسی بھی وقت ان پر بھی حملہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ یہ بھی وقت کے فقیہ کی بات ہے جس کی قدرت کے بارے میں امریکہ اور یورپ بخوبی آگاہ ہیں کہ 40 سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے وہ اس فقیہ کو جھکانے کا ہر حربہ استعمال کئے ہیں لیکن صرف ناکامی اور شکست کے سوا کچھہ نتیجہ نہیں ملا بلکہ الٹے مار ہی کھائی ہیں۔ اسی فقیہ نے امریکہ کا سارا غرور خاک میں ملایا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک کسی بھی ملک کو یہ جرات نہیں ہوئی تھی کہ وہ امریکہ کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھے لیکن اسی فقیہ کے جان بکف سپاہیوں نے سپر طاقت پر وار کر کے اس کی ساری ابہت خاک میں ملا دی۔ اب دیکھنا یہ ہے امریکہ اور یورپ کہاں تک اسلام کی مخالفت کرے گا اور کہاں تک رشدی جیسے افراد کو سیکورٹی فراہم کرے گا جب کہ اپنے ملک میں امن و امان قائم کرنے سے عاجز ہے۔ مسلمان فقہاء کے فتوے کی طاقت دیکھیں جس نے زمانے کی سپر طاقت کو ذلیل کر دیا۔

یورپ کی زمیں تھراتی ہے

رشدی کی حفاظت کیا ہوگی

فتوے سے تو دنیا ہلنے لگی

تلوار کی طاقت کیا ہوگی

نائب کی جب اتنی ہیبت ہے

آقا(عج) کی جلالت کیا ہوگی (ریحان اعظمی)

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • غلام محمد IR 16:33 - 2022/08/14
    0 0
    ماشا اللہ حوزہ نیوز کے احباب خصوصا شاہ صاحب خراج تحسین ک قابل ہے کہ حوزہ نیوز کو دنیا بهر کے مسلمانوں اور شیعوں کے دست رس میں قرار دیا اور دنیا کے گوشہ بهر کی خبر، تبصرے اور موضوع روز کے بارے میں ارٹکل دستیا ہوتے ہیں دعا ہے اس ٹیم کو سلامتی کے ساتهہ مزید خدمت کی توفیق عطا فرمائے