حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علامہ مقصود علی ڈومکی سمیت مختلف علماء کرام نے موجودہ ملکی حالات پر پریس کانفرنس پر پریس کانفرنس کی ہے۔ جس کے نکات قارئین کی خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
معزز صحافی حضرات! السلام علیکم
اس وقت وطن عزیز پاکستان کا ایک وسیع علاقہ بارش اور سیلاب کی زد میں ہے بلوچستان سندھ اور جنوبی پنجاب کا کا وسیع علاقہ سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے تباہی اور بربادی کا منظر پیش کر رہا ہے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ خواتین بچے بوڑھے جوان اس وقت کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں ان کے گھر ویران ہو چکے ہیں گھروں محلوں قصبوں اور شہروں میں چار سے پانچ فٹ پانی کھڑا ہے۔ کسانوں کی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں مال مویشی کھلے آسمان کے نیچے ہے لوگ پانی سے نکل کر شاہراہوں پر کھلے آسمان تلے بیٹھ گئے ہیں ان کے رہنے کے لئے ٹینٹ نہیں ہیں۔ کبھی بارش میں بھیگ جاتے ہیں تو کبھی سورج کی گرمی اور دھوپ انہیں جلا دیتی ہے گھر فصل مال و اسباب سب ڈوب گیا اب ان کے پاس نہ کوئی کھانے پینے کا سامان ہے اور نہ بیٹھنے کے لئے چارپائی۔ اب تک سینکڑوں لوگ لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں پاکستان اپنی تاریخ کے ایک بہت بڑے انسانی المیے سے گذر رہا ہے۔ لاشوں کو دفنانے کے لئے بھی لوگوں کو زمین نہیں مل رہی ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔ جبکہ ملک کے حکمران اقتدار کی رسہ کشی اور جنگ میں مصروف ہیں حکومت ہو یا حزب اختلاف سیاسی جماعتیں ہوں یا منتخب نمائندے ۔ کسی کو ان مظلوم متاثرین کی خبر گیری کرنے اور ان کی مدد کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔
اس وقت جب لاکھوں انسان بے گھر ہو کر بھوک افلاس اور پریشانی کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں تعجب ہے کہ قومی میڈیا اس انسانی المیے سے زیادہ اقتدار کی رسہ کشی کو کوریج دے رہا ہے۔ ان لاکھوں بے بس بے سہارا اور لاچار انسانوں کو دکھانے کی بجائے حکومت اور حزب اختلاف کے اقتداری رسہ کشی پر توجہ دئیے ہوئے ہے۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکریٹری صوبائی صدر و اراکین کابینہ کے ساتھ اس وقت متاثرہ علاقوں کے دورے پر ہیں جبکہ ایم ڈبلیو ایم کی صوبائی ضلعی تحصیل اور یونس کے کارکنان ان بارش اور سیلاب متاثرین کی ہر ممکن مدد کر رہے ہیں۔ ہم نے مختلف مقامات پر متاثرین کے لئے امدادی کیمپ لگائے ہیں۔ میں اس موقع پر تمام اہل خیر سے اور تمام اہل وطن سے اپیل کروں گا کہ مشکل کی اس گھڑی میں اپنے بے یارومددگار ہم وطنوں کو تنہا نہیں چھوڑیں۔ اور ان کی ہر ممکن مدد کریں ان کے لئے کھانے کا انتظام کریں بسکٹس اور پینے کے پانی کے ساتھ ساتھ ٹینٹ اور راشن کا سامان انتہائی ضروری ہے۔ میں ملک بھر کے تمام فلاحی اداروں سے اپیل کرتا ہوں زیادہ سے زیادہ متاثرین کی کریں۔ حکومت پاکستان اور صوبائی حکومتیں اپنی تمام تر مصروفیات کو ترک کر کے سیلاب متاثرین کے درمیان پہنچیں۔ اور متاثرین کی مدد کریں اور خدا کے لئے مظلوم بھوک و افلاس کے مارے عوام کی اس امدادی رقم کو کرپشن اور اقربا پروری اور بدانتظامی سے بچاتے ہوئے لاکھوں بے گھر مظلوم لوگوں تک پہنچائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فی الفور ڈونرز کانفرنس طلب کرے۔
معزز صحافی حضرات
اب میں صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا میں وسیع پیمانے پر درج ہونے والی ایف آئی آرز کا تذکرہ کروں گا جو نواسہ رسول حضرت امام حسین عالی مقام علیہ السلام کے ذکر یعنی مجلس عزا اور جلوس عزا کے خلاف درج کی گئی ہیں۔ یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں ذکر امام حسین علیہ السلام جیسی عظیم عبادت کو جرم قرار دے کر عزاداروں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں۔
یہ میرے سامنے پاکستان کا آئین ہے جو صریح اور دو ٹوک الفاظ میں پاکستان کے شہریوں کی مذہبی آزادی اور بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ آئین کی دفعہ 20 کے الفاظ ہیں ۔
الف ۔ ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کا حق ہوگا۔
اسی طرح آئین پاکستان کی مقدمے میں ہے کہ جس میں بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔ اظہار خیال عقیدہ دین عبادت اور اجتماع کی آزادی شامل ہوگی۔ آئین کی دفعہ 25 میں بھی شہریوں کے حقوق کی بات کی ضمانت دی گئی ہے ۔
یہ حکومت پولیس اور انتظامیہ میں یزیدی فکر کی حامل کون سی کالی بھیڑیں بیٹھی ہیں جنہیں نواسہ رسول کے ذکر سے چڑ ہے اور وہ چار دیواری کے اندر ہونے والی مجالس عزا پر ایف آئی آرز کرتے ہیں اور ہائی کورٹ کے صریح احکامات کے باوجود مجلس عزا میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ یہ ایف آئی آرز آئین پاکستان کی سنگین خلاف ورزی اور ہماری مذہبی آزادی پر حملہ ہیں جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ پنجاب اور کے پی کو یزیدستان بنانے نہیں دیں گے۔
معزز صحافی حضرات
وزارت انسانی حقوق حکومت پاکستان نے 23 اگست 2022 کو دوسری مرتبہ خط لکھ کر شیعہ سنی مسلمانوں کی عبادت یعنی ذکر حسین اور مجالس عزا کو جرم قرار دے کر ایف آئی آرز کے اندراج کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور اسے آئین پاکستان شہری حقوق اور حقوق انسانی کے بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ وزارت انسانی حقوق نے اپنے اس اقدام سے آئین پاکستان کے ساتھ ساتھ کروڑوں پاکستانیوں کے جذبات کی صحیح ترجمانی کی ہے۔
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ فی الفور مجالس عزا اور عزاداری کے خلاف مقدمات واپس لئے جائیں اور انتظامیہ و پولیس میں موجود ان عناصر سے جواب طلبی کی جائے جنہوں نے یہ شرمناک عمل انجام دیا ہے۔ فقط ضلع ہری پور میں 18 ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں جو ضلعی انتظامیہ اور ڈی پی او کی نالائقی اور متعصبانہ رویے کی دلیل ہے۔ اسی طرح میانوالی ضلع میں 7 اور گوجرانولہ ضلع میں 5 مقدمات درج ہوئے۔ اس سال صوبہ بلوچستان اور جی بی میں کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی جبکہ صوبہ سندھ میں فقط ضلع خیرپور میں 3 ایف آئی آرز درج ہوئیں۔ مگر کے پی کے میں دو درجن سے زائد اور پنجاب میں اب تک 80 سے زائد ایف آئی آرز درج ہو چکی ہیں۔ جو کہ بہت بڑا ظلم ہے۔
سندہ کے ضلع جیکب آباد و ضلع شکار پور کے سرحدی شہر شیرانپور میں سات محرم الحرام کے دن چار بجے عزاداروں پر بلال تھہیم کی جانب سے اس وقت فائرنگ کی گئی جب وہ علم پاک تبرکات اور حضرت علی اصغر علیہ السلام کے جھولے کی شبیہ کے ساتھ جا رہے تھے مقام افسوس ہے کہ اب تک سندھ حکومت اور ضلعی انتظامیہ نے مجرموں کو گرفتار نہیں کیا۔ سندھ کے ضلع خیرپور میں بھی گیارہ محرم الحرام کو کالعدم دہشت گرد ٹولے نے جلوس نکال کر سبیل امام حسین علیہ السلام پر حملہ کیا اور ضلعی انتظامیہ نے ظالم اور مظلوم دونوں کے خلاف مقدمہ درج کیا۔
اب میں اسلام آباد کراچی کمپنی تھانے کے متعصبانہ رویے کا ذکر کروں گا جہاں آئے روز کالعدم دہشت گرد ٹولے کے وہ لوگ جن کے نام شیڈول فور میں ہیں وہ جلوس لے کر پہنچتے ہیں اور ان کی فرمائش پر اتحاد بین المسلمین کے علمبردار علماء کرام پر مقدمہ درج کیا جاتا ہے حالانکہ شیڈول فور والے عناصر کا جلوس میں شریک ہونا قانونا جرم ہے۔ علامہ سخاوت قمی، علامہ نصرت عباس بخاری علامہ سید شہنشاہ نقوی اور علامہ کاظم نقوی ہمیشہ شیعہ سنی وحدت امن اور اتحاد امت کے علمبردار رہے ہیں۔ ان کی تقاریر میں کالعدم دہشت گرد ٹولے کے شیڈول فور میں شامل دھشت گرد بریکٹ لگا کر ایف آئی آر کی فرمائش کرتے ہیں۔ جو امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کو سب و شتم کرے نعوذ باللہ گالیاں دے یا لعنت کرے ہم اسے صحابی نہیں مانتے یہ جملہ کہنے پر علامہ سید کاظم نقوی پر مقدمہ درج ہوا پہلی بات تو یہ کہ یہ عبارت کسی طور توہین کے زمرے میں نہیں آتی۔ دوسرے یہ کہ یہ تھانے کا نہیں سائبر کرائم کا مسئلہ ہے۔
آخر میں میں پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں پیش آنے والے انسانیت سوز واقعے کی نشاندھی کروں گا۔ ضلع شیخوپورہ فاروق آباد کے نزدیک 11 محرم کو ایک شیعہ مسلمان فوت ہوا انتہاء پسند تکفیری گروہ نے اسے محلے کے قبرستان میں دفن ہونے نا دیا ضلعی انتظامیہ اس واقعے کے مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔
علامہ مقصود علی ڈومکی، مرکزی سیکرٹری تنظیم و سربراہ عزاداری کونسل مجلس وحدت مسلمین پاکستان
شرکاء پریس کانفرنس:
علامہ علی شیر انصاری نائب صدر مجلس علمائے شیعہ اسلام آباد
علامہ غلام محمد عابدی نائب صدر ایم ڈبلیو ایم ضلع راولپنڈی
علامہ عیسی امینی سیکرٹری مجلس علمائے شیعہ پاکستان
علامہ محمد مرتضی علوی۔ مدرسہ الولایۃ پاکستان