حوزہ نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی سروس کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ سیدہ زہرا (س) لبنان میں خواہران کا پہلا مدرسہ ہے جس کی بنیاد 1979ء میں شہید سید عباس موسوی نے رکھی تھی۔ مسلم خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے اس حوزہ کی فعالیت مثالی رہی ہے۔ خواہران کے ہاسٹل کی موجودگی نے اس مدرسہ کو دیگر خواہران کے مدارس سے ممتاز کردیا ہے جس کی وجہ سے لبنان کے تمام علاقوں اور یہاں تک کہ شام سے بھی خواہران اس حوزہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتی ہیں۔
لبنان میں مدرسہ سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ڈائریکٹر محترمہ ہالہ حکیم نے حوزہ نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے اس مدرسہ کی سرگرمیوں اور ایران میں خواتین کے مدرسوں کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کی ضرورت پر تاکید کی ہے۔
حوزہ نیوز سے ان کی گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
حوزہ: مدرسہ سیدہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے پس منظر اور اس کی اب تک کی سرگرمیوں کے بارے میں بیان کریں۔
محترمہ ہالہ حکیم: یہ مدرسہ لبنان میں خواتین کا پہلا مدرسہ ہے جس کی بنیاد 1979ء میں شہید سید عباس موسوی (رح) اور ان کی اہلیہ نے رکھی تھی۔ اس مدرسے کے قیام کے آغاز میں "بقاع" کے علاقے میں ایک خاص قسم کی صورتحال حاکم تھی اور اس علاقے کی خواتین میں خاص طور پر دینی امور کے بارے میں بہت زیادہ جہالت اور لاعلمی پائی جاتی تھی۔ مذہب کی طرف تمایل انسان کے ایک اصل اور فطری رجحان کی شکل میں جو طولِ تاریخ میں انسانی مزاج میں موجود رہا ہے، اس وقت کے لوگوں میں بھی موجود تھا لیکن وہ شرعی احکام اور مفاہیمِ دینی سے بہت ناواقف تھے۔
اس لیے اس علاقے میں مدرسہ قائم کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ حوزہ علمیہ سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا کے قیام کے دو مقاصد تھے۔ پہلا دینی علوم، احکام اور مفاہیم دینیہ کو سیکھنے کا موقع فراہم کرنا اور دوسری طرف نوجوان خواتین اور بچیوں کا ایک مجموعہ اور گروپ بنانا جو خواتین میں کام اور مذہبی تبلیغ اور بیداری کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خواتین کی معرفت، علم، تدیّن اور شعور کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
حوزہ: اس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والی طالبات اپنے علاقوں میں کیا سرگرمیاں انجام دے رہی ہیں؟
محترمہ ہالہ حکیم: اس حوزہ نے ابتدا میں محدود تعداد میں طلبہ کو تربیت دی لیکن ہمیں خوشی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ تعداد لبنان کے تمام دیہاتوں اور علاقوں خاص طور پر "بقاع" کے علاقے تک پھیل گئی اور خوش قسمتی سے لبنانی خواتین نے تعلیم کے لیے اس مدرسہ کا رخ کیا اور اب تک سینکڑوں طالبات اس حوزہ سے فارغ التحصیل ہو چکی ہیں۔
مدارس اور انتظامی مراکز میں لبنانی خواتین مبلغین کی سرگرمیاں
آج اس حوزہ سے فارغ التحصیل افراد کا ایک بڑا حصہ معاشرہ کے مختلف شعبوں میں خواتین مبلغین، پروفیسرز اور دینی علوم کی لیکچررز کے طور پر اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
خدا کا شکر ہے کہ یہ حوزہ اپنے قیام کے بعد سے بقاع کے علاقے میں اپنی دینی اور اسلامی سرگرمیوں میں فعال رہا ہے اور خاص طور پر ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد اس حوزہ نے امام خمینی (رہ) کے تفکر کوہی مزید وسعت دی اور امام راحل (رہ) کی تقلید اور خواتین کے درمیان تبلیغ اور فکر اسلامی کے رواج اور مستند اور خالص اسلام کی اشاعت کے لیے یہ حوزہ اپنی ذمہ داری نبھانے میں کامیاب ہوا۔ نیز، حوزہ سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا معاشرہ میں لبنانی خواتین کو مذہبی اور ثقافتی پہلوؤں سے بیدار کرنے میں بھی انتہائی موثر ثابت ہوا ہے۔
حوزہ: حوزہ سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا میں ہر سال کتنے مبلغین تعلیم حاصل کرتے ہیں؟
محترمہ ہالہ حکیم: مقدار کے لحاظ سے ہر سال طلباء کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔ اس حوزہ نے مختلف مراحل میں طلباء کو مذہبی علوم کی تعلیم کے لیے راغب کیا ہے۔ سالِ تاسیس کے پہلے مرحلے میں طلبہ کی تعداد بہت کم تھی اور اس کے بعد بتدریج طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور ہر سال اوسطاً ایک سو طلبہ تعلیم و تربیت کے حصول کے لئے مشغول رہتے تھے اور یہ تعداد بعض اوقات کم ہوتی تھی اور کبھی زیادہ۔
لیکن لبنان میں بہت سے مدارس کو قائم ہوئے دس سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے اور ان میں سے کچھ مدارس مختلف ثقافتی اور مذہبی اداروں میں فعالیت انجام دیتے ہیں۔ نیز، خواہران نے بہت سے مدارس کے افتتاح کا خیرمقدم کیا اور فی الحال اس حوزہ میں سالانہ اوسطاً 50 طلباء علومِ دینیہ حاصل کرتے ہیں۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے دو سالوں کے دوران، حوزہ علمیہ کے لئے ایک نیا کامیابی کا راستہ کھلا اور اس دوران بہت سے طلباء نے حوزہ میں تعلیم حاصل کرنے کا خیر مقدم کیا اور میری رائے کے مطابق یہ چیز لبنان سے باہر رہنے والی بہت سی نوجوان خواتین اور بچیوں کے لیے ایک بہترین فرصت تھی جو جس سے استفادہ کرتے ہوئے انہوں نے حوزہ علمیہ میں ثبتِ نام کیا اور آن لائن تعلیم سے استفادہ شروع کر دیا اور خوش قسمتی سے یہ کامیابی حوزہ علمیہ سیدہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کو نصیب ہوئی اور ہماری کوشش ہے کہ اس تعداد میں مزید اضافہ ہو۔
حوزہ: لبنان اور ایران میں خواتین کے حوزاتِ علمیہ کے درمیان روابط کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے اور ایران اور لبنان میں خواتین کے مدارس کا باہمی رابطہ کیا فائدہ رکھتا ہے؟
محترمہ ہالہ حکیم: بلاشبہ خواتین کے مدارس کا باہمی رابطہ انتہائی اہم اور ضروری ہے، اس لیے لبنان کے مدارس ایک دوسرے سے اور اسی طرح سے ایران کے مدارس سے مرتبط ہیں کیونکہ جمہوریہ اسلامی ایران "ام القری" کی طرح ہے جو ایران سے باہر بھی اپنے فرزندان کی حمایت اور پرورش کرتا ہے۔
تمام شیعہ حوزاتِ علمیہ اور ایران کے مرکزی حوزہ علمیہ کے درمیان رابطہ قائم ہونا بہت ضروری ہے، اس سے شیعہ حوزاتِ علمیہ کو مزید طاقت اور استحکام ملے گا اور حوزاتِ علمیہ کے درمیان تجربات اور تعاون کا نقل و انتقال انتہائی مؤثر واقع ہو گا۔
موجودہ دور میں "جنگِ نرم" (سافٹ وار) کے مقابلہ میں بھی حوزاتِ علمیہ کا کردار انتہائی اہم ہے اور اس سلسلے میں ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ ان کا براہ راست تعلق مذہب کی صحیح نشر و اشاعت اور دینی علوم کے فروغ سے ہے۔ان شاءاللہ تمام حوزاتِ علمیہ اس میدان میں اپنی اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھائیں گے۔