۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
وفاقی اردو یونیورسٹی

حوزہ/ پنجاب بھر کے کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلے جاری ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں دو فیصد کوٹہ ٹرانس جینڈرز کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہے۔ یعنی ہر پچاس طلباء یا طالبات کی کلاس میں ایک ٹرانس جینڈر داخلہ لے گا۔

تحریر: محمد عاصم حفیظ

حوزہ نیوز ایجنسی | پنجاب بھر کے کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلے جاری ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں دو فیصد کوٹہ ٹرانس جینڈرز کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہے۔ یعنی ہر پچاس طلباء یا طالبات کی کلاس میں ایک ٹرانس جینڈر داخلہ لے گا۔ جی ہاں ہر کالج ۔ یونیورسٹی کی ہر کلاس میں ایک سیٹ ٹرانس جینڈر کے لیے مخصوص ہو گی۔ یہ سیٹ میرٹ سے ہٹ کر ہو گی ۔ یعنی اس پر داخلے کے لئے میرٹ پر آنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بس ٹرانس جینڈر کا سرٹیفیکیٹ دکھائیں اور داخلہ لیں ۔ میرٹ یا انٹرویو صرف اس صورت میں ہو گا اگر کسی ایک ہی سیٹ پر ایک سے زیادہ ٹرانس جینڈر اپلائی کر دیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ کالج و یونیورسٹیز کی سینکڑوں بلکہ ہزاروں سیٹوں کے لیے ٹرانس جینڈر آئیں گے کہاں سے ؟؟

سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلوں کے خواہشمند اس صورتحال کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں ۔ بڑے تعلیمی اداروں ۔ پرکشش ڈگریوں ۔ میڈیکل ۔ آئی ٹی ۔ سائنسز اور بہت سے دیگر کورسز میں داخلوں کے لیے کس قدر مشکل ترین مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ۔ میرٹ کتنا ہوتا ہے اور ایک ایک سیٹ کے لیے کس طرح جنگ ہوتی ہے ۔ ایک سیٹ کا مطلب ہوتا ہے لاکھوں روپے کی بچت اور کسی اعلی ترین یونیورسٹی یا کالج کی ڈگری ۔ دراصل یہ ایک راہ دکھائی گئی ہے ۔ کہ بس ٹرانس جینڈر کا سرٹیفیکیٹ حاصل کریں اور میرٹ کو روندتے ہوئے داخلہ لیں ۔

اب ذرا اس صورتحال کو سمجھیں ۔ پنجاب یونیورسٹی ۔ جی سی یونیورسٹی ۔ یو ای ٹی ۔ اور ایسے ہی اداروں میں داخلے کا مطلب کیا ہوتا ہے ۔ ہزاروں طلباء و طالبات اپلائی کرتے ہیں ۔ چند کا داخلہ ہوتا ہے ۔ خواہشمند ان اداروں میں داخلے کے لئے اینٹری ٹیسٹ تیاری پر بھاری اخراجات کر دیتے ہیں ۔ اور پھر آپ کو ایک راہ دکھائی جائے کہ صرف ایک سرٹیفیکیٹ آپ کے مستقبل اور داخلے کی راہ کھول دے گا ۔

ایسا نہیں کہ ہر کوئی یہ کرے گا لیکن بہت سے ضرور اس آپشن پر غور کریں گے ۔ جی بلکل جیسے بیرون ملک پیپر میرج ہوتی ہے ۔ سمجھانے والے سمجھائیں گے کہ صرف کاغذات میں ہی تو لکھنا ہے ۔جیسے ہمارے ہاں لوگ خود کو بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ میں رجسٹر کرا لیتے ہیں۔ جیسے ہماری عدالتوں میں گواہ پیش ہوتے ہیں ۔ صرف ایک مثال دوں گا ۔ جو مجھے ایک کالج پرنسپل نے بتائی ۔ پرائیویٹ کالجز میں پڑھنے یا پڑھانے والے ضرور سمجھ سکتے ہیں ۔ کئی پرائیویٹ کالجز نیٹ ورک اعلی نمبروں والے طلباء کو سکالرشپ دیتے ہیں۔ کالج نے رعایت دے رکھی تھی کہ ضرورت مند طلبا کو بھی کچھ فیس معاف کر دیتے ۔ ہوتا یہ تھا کہ اس رعایت کے لیے آپ کو اپنے بھائی یا باپ کو ساتھ لانا ہوتا کہ ہم مستحق ہیں ۔

پرنسپل صاحب نے بتایا کہ کئی طلباء جعلی والدین یا بھائی لے آتے ۔ حتی کہ دیہاڑی دار مزدور ۔ کوئی ریڑھی والا یا کسی دوست کو ۔ گھر سے پوری فیس وصول کرکے باقی رقم سے پارٹی کرتے ۔ ان کے لیے یہ شغل میلہ تھا اور بس ۔۔۔ کیا داخلوں کے خواہشمند نوجوانوں کو کلرک یہ راہ نہیں دکھائیں گے ؟ سپورٹس کوٹہ کا صحیح استعمال چند اداروں میں ہی ہوتا ہوگا ۔ زیادہ تر جعلی سرٹیفکیٹس پر داخلے ۔۔ نوکریوں میں بلوچستان کوٹہ پر کون بھرتی ہوتے ہیں؟ یہ سب اسی ارض پاک میں ہوتا ہے۔ دراصل فرق بہت بڑا ہے ۔ ایک ڈگری جو پرائیویٹ اداروں میں لاکھوں روپے فیس کے عوض ملتی ہے وہ انتہائی کم فیس میں سرکاری ادارے کی پہچان کے ساتھ ۔

یہ کوٹہ قانونی طور داخلوں کے لیے مخصوص کر دیا گیا ہے ۔ اسی طرح سرکاری بھرتیوں میں بھی ۔ جہاں بلوچستان کوٹہ ۔ دیہہ سندھ کا کوٹہ اور جنوبی پنجاب کا کوٹہ نوکریوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں وہاں ٹرانس جینڈر کوٹہ بھی استعمال ہو گا ۔

اسکا ایک خطرناک ترین پہلو گرلز اور بوائز کے اداروں میں داخلے سے متعلق ہو گا ۔ مثلا ایک جسمانی طور پر لڑکا محض ایک سرٹیفیکیٹ کے ذریعے گرلز کالجز میں داخلہ لے سکتا ہے ۔ قانونی طور پر اسے نہیں روکا جا سکتا ۔۔ اسی طرح یہ میرٹ کی دھجیاں اڑانے کے بھی مترادف ہے ۔ اس کی آڑ میں بہت سی نوکریاں اور تعلیمی اداروں کی سیٹیں میرٹ اور حق کے بغیر محض ایک سرٹیفیکیٹ کی بنیاد پر حاصل کر لی جائیں گیں ۔ یہ صرف لڑکوں کے لیے ہی نہیں ہزاروں لڑکیوں کے حقوق کی پامالی ہو گی کیونکہ یہ سیٹیں میرٹ سے نکل جائیں گیں ۔

کچھ ادارے ابھی تک اس کوٹے کو بچا رہے ہیں البتہ بہت جلد اسے سختی سے نافذ بھی کرا دیا جائے گا ۔ اس سے پھر دیگر معاشرتی ۔ سماجی اور خاندانی مسائل پیدا ہوں گے ۔ ٹرانس جینڈر کی قانونی تعداد بڑھے گی ۔ این جی اوز ان اعدادوشمار کو ہائی لائٹ کریں گیں ۔ جو اس کوٹہ پر بھرتی ہوں گے یا داخلہ لیں گے انہیں ایک مخصوص کمیونٹی کا حصہ بننا پڑے گا ۔ لارڈ میکالے نے کہا تھا کہ ہم ایسا تعلیمی نظام بنائیں گے جس سے ضروری نہیں کہ یہ سب مسیحی بن جائیں البتہ خیالات و سوچ و نظریات میں مسلمان بھی نہ رہیں گے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .