حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مجلس عزا سے حجةالاسلام والمسلمین مولانا اختر علی مشہدی (آف شاھپور رضویہ) نے خطاب کیا۔
انہوں نے امیرالمومنین علی ع کے کلام کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ امیرالمومنین ع نے فرمایا: باتیں کرو تاکہ پہچانے جاؤ۔ بتحقیق ھر انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بابرکت ہے وہ ذات جس کے قبضہ قدرت میں ہماری جان ہے اور درود و سلام اھلبیت ع پر۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم محبان اھلبیت ع ہیں۔ خدا کا شکر کہ ہمارا دل زندہ ہے محبت اھلبیت ع میں۔
مولانا مشہدی نے کہا کہ قرآن میں انسان کا معیار دل ہے۔ اگر قلب زندہ نہیں تو انسان کی سانس اس کے زندہ ہونے کی علامت نہیں ہے۔ قران میں بھی مذکور ہے کچھ لوگ ہیں ان کے پاس آنکھیں تو ہیں لیکن وہ دیکھتے نہیں۔کچھ ایسے لوگ ہیں جن کے پاس کان ہیں لیکن وہ سنتے نہیں۔ دل تو ہے لیکن وہ سمجھتے نہیں۔ اللہ عزوجل کسی مخصوص طرف اشارہ کرنے کے لیٸے بتانا چاہتا ہے کہ ہر چیز تم کو دی ہے لیکن وہ کام تم کر نہیں رہے۔یہ سب اعضاء خدا نے دیٸے اس لیٸے کہ جو میں کہوں اس پر عمل کرو اور اس کو اپنے قلب میں رکھو اگر نہیں تو تم زندہ نہیں مردہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ سیدہ کے اوپر جب دروازہ گرایا تو سیدہ نے پکارا یا مھدی عج اور مھدی عج نے فرمایا رسول اللہ کی زندگی کی اتباع سے، میرے لیٸے سیدہ زھرا س کی زندگی نمونہ عمل ہے۔سیدہ 75 یا 95 دن زندہ رہیں رسول س کے بعد۔ اب دیکھے تو اس وقت کون زندہ تھا اور کون مردہ تھا۔اللہ نے انسان کو عقل و قلب دیا ہے۔سب مسلمانوں نے دیکھا کہ مدینے میں سیدہ کے ساتھ کیا ہو رہا تھا۔ کتب اھل سنت و کتب عیاٸیت میں اور اھل تاریخ نے اس موضوع پر بہت سی کتابیں لکھیں ہیں۔ تاريخ کی کتب کو پڑھے اور دیکھے کہ سیدہ کے ساتھ کتنا ظلم کیا گیا۔ رسول اللہ نے فرمایا:میری بیٹی اللہ کی خوشنودی اور اس کے غضب کا سبب ہے۔
انہوں نے سیدہ کے القاب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سیدہ کے القابات میں سے ام ابيها۔ ام الآٸمہ ہے۔ام کا ایک معنی ہے بنیاد۔ وہ چیز جس سے کچھ نمودار ہو۔ یہ وہ سیدہ ہیں جس سے رسالت و امامت پروان چڑھتی ہیں۔ حدیث قدسی میں ہے کہ اے رسول تم نا ہوتے تو اس افلاک کو خلق نہیں کرتا۔ آگے فرمایا اے رسول اگر علی نا ہوتے تو تمہیں پیدا نہیں کرتا۔ آگے فرمایا اے رسول اگر فاطمہ نا ہوتیں تو میں تم سب کو پیدا نا کرتا۔ رسالت جس کی وجہ سے باقی ہے وہ ولایت تھی۔لوگوں کے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کیلئے ایک خطبہ دیا جس کو خطبہ فدک کہتے ہیں اور اھلسنت کے ہاں خطبہ قاھرہ لکھا گیا ہے۔ خطبہ سنانے کے لیٸے سیدہ خود آٸیں اور بتانا چاہا کہ میری سنو میں آٸی ہوں دیکھو بھی۔
مولانا مشہدی نے کہا کہ انسان کے کلمات انسان کی شناخت کرواتے ہیں۔مولا ع فراتے ہیں۔ جب تک انسان لفظ نہیں نکالتا وہ اس انسان کا غلام ہے اور جب انسان بولتا ہے تب انسان اس لفظ کا غلام ہے۔ سیدہ نےاپنا تعارف کروایا ہے۔سیدہ نے توحید سے خطبہ شروع کیا رسالت شریعت دین کے حوالے سے خطبہ پیش کیااور سب کو متوجہ کر کے کہا اے لوگو آپ پہچانو میں فاطمہ ہوں میں محمد کی بیٹی ہوں جب تک جو دین مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتا تب تک اس کو فاطمہ سمجھ میں نہیں آٸے گی۔سیدہ نے ترتیب سے خطبہ دیا۔جب سے جناب آدم خلق ہوا تب سے سب سے افضل ترین کلام ہے قرآن اس سے مزید کوٸی کتاب افضل نہیں۔ ھر مشکلات کا حل قرآن میں ہے۔ یہاں قران کو فقط مردہ لوگو اور دنیوی مفادات کے لیٸے استعمال کرتے ہیں۔ خدا نے قران کو فقط ان کاموں کے لیٸے نہیں نازل کہا بلکہ خدا فرماتا ہے کہ میں نے قرآن اس لیٸے نازل کیا ہے اس کے ہدف تک پہنچ کر اس سے فاٸدہ حاصل کریں۔قران کا ہدف یہ ہے کہ ھدی اللمتقین۔ هر چیز کے دو پہلوں ہوتے ہیں۔ جناب فاطمہ کے کلام کی اھمیت کیا ہے؟قرآن جب نازل ھوا۔ جب آیت انا انزلناہ۔۔ نازل ہوٸی قدر کی رات میں قرآن نازل ہوا ہے جناب رسول خدا کے قلب پر۔امام صادق ع نے فرمایا: اللہ نے قرآن کو لیلةالقدر میں نازل کیا اورمیری دادی فاطمہ لیلةالقدر ہیں۔ رسول خدا کے ساتھ صحابہ کا قافلہ سیدہ کے دروازے پر آٸے اور رسول نے فرمایا: فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے، فاطمہ میرا قلب ہے فاطمه میری روح ہے۔
حجت الاسلام مشہدی نے مزید کہا کہ وہ کلام جو جناب آدم سے لیکر رسول خدا تک قرآن ہے جس سے برتر کوٸی اور کلام نہیں اس کلام کے نازل ہونے کی جگہ سیدہ فاطمہ ہے۔ رسول خدا سے روایت ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ میں معبود ہوں لیکن ایسی عبادت کریں جیسے فاطمہ کرتی ہیں۔ خدا کی طرف سے جب بھی نعمت ملے توشکر کریں۔لیکن سیدہ کا شکر گذار خدا ہے کہ جب بھی کوٸی ساٸل آتا تو اپنا کھانا انہیں دیتیں اور خود بھوکے بیٹھتی تھیں اور خدا کہتا کہ اے فاطمہ میں آپ کا مشکور ہوں۔ سیدہ نے دربار میں مخاطب ہو کر فرمایا: جو نعمات ہمیں ملی کیا ان پر آپ حسد کرتے ہیں اور سیدہ زینب نے بھی وہی خطبہ بیان کیا: میں خدا کا شکر کرتی ہوں اس کی حمد و ثناء کرتی ہوں۔سیدہ نے دربار میں فروعات دین کا سبب بتایا اور بتایا کہ واجبات اللہ نے کیوں لازم کئے ہیں اور ان کے اسباب سید نے بتاٸے۔ ہماری عبادت کرنے یا نہ کرنے سے خدا کی عبودیت پر کوٸی اثر نہیں لیکن خلاصه یہ ہے کہ جو سیدہ نے عبادات کا خلاصہ بتایا کہ اللہ نے انسان پر عبادت اسی لیٸے واجب کی کہ انسان انسان کے ساتھ بھتر رویہ سر انجام دے۔ نماز اس لیٸے واجب کی قلب سے تکبر دور ہو۔ امیرالمومنین نے فرمایا: حیرت ہے ان پر جو عبادات کرنے کے بعد ایسے متکبر ہو جاتے ہیں جیسے ان کو یقین ہو کہ یہ عبات قبول ہو گٸی ہو، لیکن اس نے جو گناہ کیٸے ہیں اس پر وہ سوچتا ہی نہیں۔