تحریر: مولانا کاشف رضا گلزار
حوزہ نیوز ایجنسی | فاطمہ بنت موسی بن جعفرعلیہما السلام، حضرت معصومہؑ کے نام سے مشہور، امام موسی کاظم علیہ السلام کی بیٹی اور امام علی رضا علیہ السلام کی بہن ہیں۔ جب آپ کے بھائی امام رضا علیہ السلام مامون رشید کے حکم پر مجبوراً مدینہ سے طوس تشریف لے گئے تو کچھ مدت بعد آپ بھی اپنے بھائی کی ملاقات دیدار کے لئے مدینہ سے طوس کے سفر پر نکلیں؛ لیکن راستے میں بھائی سے ملاقات سے پہلے ساوہ میں دشمنان اسلام و اہلبیت علیہم السلام کی طرف سے کچھ ناگوار حادثات پیش آئے جس سے آپ مسموم ہوئیں اور پھر قم تشریف لائیں اورقم میں آپ کی وفات ہوئی اور وہیں پر دفن ہیں۔
معصومہ اور کریمۂ اہل بیت حضرت فاطمہ قم کے مشہور القاب ہیں۔(۱) آپ کا مشہور لقب معصومہ ہے اور اسی لقب سے پوری دنیا میں مشہور ہیں البتہ یہ لقب اتنا مشہور ہوا کہ باہر سے آنے والے آپ کے زائرین سمجھتے ہیں کہ یہی آپ کا اصلی نام ہے،آپ کا لقب؛ معصومہ، امام رضاؑ سے منسوب ایک روایت سے اخذ کیا گیا ہے۔(۲) محمد باقر مجلسی کی کتاب زاد المعاد کی روایت میں امام رضاؑ نے آپ کو معصومہ کے نام سے یاد کیا ہے۔(۳) اور اسی لقب سے مشہور ہوگئیں۔
آپ کا ایک اور مشہور لقب؛ کریمۂ اہل بیت ہے۔(۴) کہا جاتا ہے کہ آیتاللہ مرعشی نجفی کے والد سید محمود مرعشی نجفی کو ائمۂ معصومین علیہم السلام میں سے کسی ایک نے حضرت معصومہ علیہا السلام کو کریمۂ اہل بیتؑ سے تعبیر کیا ہے۔(۵)
اہل تشیع کے یہاں آپ اور آپ کی زیارت خاص اہمیت کی حامل ہے یہاں تک کہ ائمہؑ سے منقول احادیث کے مطابق قیامت کے دن آپ کی شفاعت سے شیعہ جنت میں جائیں گے اور آپ کی زیارت کرنے والوں کیلئے بہشت واجب قرار دی گئی ہے۔ اسی طرح کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہراؑ کے بعد صنف نسواں میں صرف آپ ہی کے لئے ائمہؑ معصومین علیہم السلام کی طرف سے زیارت نامہ نقل ہوا ہے۔
ائمہ معصومین علیہم السلام کی احادیث میں آپ کی زیارت کرنے والوں پر بہشت واجب قراردی گئی ہے ، یہ خود آپ کی عظمت ومنزلت، شان و شوکت کے لئے کافی ہے اور آپ کی شخصیت کو واضح و روشن کرتی ہے:
امام صادق علیہ السلام: ۔۔۔۔۔۔ مَنْ زَارَهَا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ ۔۔۔۔۔؛(۶) امام رضا علیہ السلام:۔۔۔۔۔ نَعَمْ مَنْ زَارَهَا عَارِفاً بِحَقِّهَا فَلَهُ الْجَنَّةُ ؛(۷) امام محمد تقی الجواد علیہ السلام:مَنْ زَارَ عَمَّتِی بِقُمَّ فَلَهُ الْجَنَّةُ (۸) اس کے علاوہ دیگر مستندات کتابوں میں موجود ہیں جو آپ کی شان و منزلت کو روشن و منور کرتے ہیں اسی طرح آپ کے زیاتنامہ میں ایسے کلمات ازجملہ:
السَّلامُ عَلَیْکِ عَرَّفَ اللّٰهُ بَیْنَنا وَبَیْنَکُمْ فِی الْجَنَّهِ، سلام ہو آپ پر خدا ہمارے اور آپ کے درمیان شناسائی کو برقرار رکھے؛ وَحَشَرَنا فِی زُمْرَتِکُمْ ۔۔۔۔۔، اور ہم کو آپ کے زمرہ میں محشور کرے؛ ۔۔۔۔۔، وَأَنْ یَجْمَعَنا وِإِیَّاکُمْ فِی زُمْرَهِ جَدِّکُمْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ، اور ہم کو اور آپ کو جمع کرے آپ کے جد محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ کے زمرہ میں؛ وَأَنْ لَایَسْلُبَنا مَعْرِفَتَکُمْ ۔۔۔۔۔، اور ہم سے سلب نہ کرے آپ کی معرفت کو۔۔۔۔۔؛ أَتَقَرَّبُ إِلَى اللّٰهِ بِحُبِّکُمْ، میں اللہ سے تقرب حاصل کرتا ہوں آپ کی محبت کے ذریعہ؛ وَالْبَراءَهِ مِنْ أَعْدائِکُمْ، اور آپ کے دشمنوں سے برائت و بیزاری کے ذریعہ؛ وَالتَّسْلِیمِ إِلَى اللّٰهِ راضِیاً بِهِ غَیْرَ مُنْکِرٍ وَلَا مُسْتَکْبِرٍ، اور اللہ کی طرف سر تسلیم خم کئے ہوئے اس پر راضی رہتے ہوئے بغیر انکار اور تکبر کے؛ وَعَلَىٰ یَقِینِ مَا أَتىٰ بِهِ مُحَمَّدٌ وَبِهِ راضٍ، اور اس کے یقین پر جو حضرت محمدؐ لائے اور اس سے راضی رہتے ہوئے؛ نَطْلُبُ بِذٰلِکَ وَجْهَکَ یَا سَیِّدِی اللّٰهُمَّ وَرِضاکَ وَالدَّارَ الْآخِرَهَ، میں طلب کرتا ہوں اس کے ذریعہ آپ کی ذات کو اے میری سردار، اے خدا تیری مرضی اور آخرت کی سعادت کو طلب کرتا ہوں؛ یَا فاطِمَهُ اشْفَعِی لِی فِی الْجَنَّهِ فَإِنَّ لَکِ عِنْدَ اللّٰهِ شَأْناً مِنَ الشَّأْنِ، اے فاطمہؑ آپ میری شفاعت کیجئے جنت کے لئے کہ آپ کی خدا کے نزدیک شان و منزلت ہے۔(۹)
امام معصوم ؑ کی طرف سے منقول ہوئے جس سے آپ کی بندگی اور اللہ کے نزدیک آپ کی شان و شوکت، وقار ومنزلت ، عظمت و کمال ، تقرب بارگاہ الہی ہوناثابت کرتے ہیں جس کی نذیر غیرمعصوم میں ملنا ناممکن ہے۔ آپ غیر معصومہ ہیں مگر قول امام میں معصومہ ہیں، یہ بہت بڑی فضیلت ہے۔ خدا وند کریم ہمیں توفیق عنایت فرمائے کہ ہم آپ کی معرفت سے بہرمند ہوں، اور حتی المقدور آپ کی شناخت حاصل کریں۔ آمین
حوالہ جات:
۱۔ مہدی پور، کریمہ اہل بیتؑ، ۱۳۸۰ ہجری شمسی، ص۲۳و۴۱؛ نیز ملاحظہ کریں: اصغری نژاد، «نظرى بر اسامى و القاب حضرت فاطمہ معصومہؑ»۔
۲۔ مہدی پور، کریمہ اہل بیتؑ، ۱۳۸۰ ہجری شمسی، ص۲۹۔
۳۔ مجلسی، زاد المعاد، ۱۴۲۳ھ، ص۵۴۷۔
۴۔ مہدی پور، کریمہ اہل بیتؑ، ۱۳۸۰ش، ص۴۱و۴۲۔
۵۔ مہدی پور، کریمہ اہل بیتؑ، ۱۳۸۰ش، ص۴۱و۴۲۔
۶۔ بحار الانوار، ج 48، ص ۲۱۳۔
۷۔ مستدرک الوسائل، ج 10، ص 368.
۸۔ بحار الانوار، ج 48، ص 316.
۹۔ مفاتیح الجنان