حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، املو،مبارکپور،ضلع اعظم گڑھ(اتر پردیش)ہندوستانا/ گر کوئی نماز پڑھے اور دعاء نہ مانگے تو اس کی نماز بارگاہ الٰہی میں قابل قبول نہیں ہوتی۔اسی سے اندازہ لگائیے کہ دعاء کتنی اہمیت کی حامل عبادت ہے۔جبکہ نماز کے لئے اصطلاح شریعت میں صلوٰۃ لفظ استعمال ہوتا ہے جس کے لغوی معنی دعاء کے ہیں۔سورۂ مومن آیت نمبر 60میں ارشاد رب العزت ہے کہ ؛ اے لوگو! مجھ سے دعا کرو، میں اسے قبول کروں گا۔ معتبر و مستند احادیث میں ہے پروردگار عالم کے نزدیک دُعا سے بڑی کوئی شئی نہیں۔ دُعا مومنوں کا ہتھیار، دین کا ستون اور آسمان و زمین کا نور ہے۔دعا عبادات کا مغز ہے۔اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے مذہب میں ائمہ معصومین علیہم السلام کی بتائی ہوئی ادعیہ ماثورہ کا اتنا بڑا خزانہ ہے کہ دنیا کے کسی مذہب میں نہیں۔صحیفۂ سجادیہ ،دعائے کمیل،دعائے ندبہ،دعائے عرفہ وغیرہ میں علم و معرفت کا بحر ذخّار موجزن ہے۔ مسنون دعاؤں کی کئی مشہور و مستند کتابیں بھی ہیں۔ہمارے ائمہ معصومین نے نہ صرف دعائیں بتائی ہیں بلکہ قبولیتِ دعا کے مکمل شرائط بھی بتائے ہیں۔ سید الشہداءحضرت امام حسینؑ کی زبان مبارک سے نکلنے والی یہ دعا و مناجات معارف دین کا عظیم الشان خزانہ ہے ۔امام حسینؑ خداوند عالم کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں : پروردگار! جس نے تجھے کھو دیا اس نے کیا پایا؟ اور جس نے تجھے پا لیا اس نے کیا کھویا؟ ۔
ان خیالات کا اظہار حجۃ الاسلام مولانا زین علوی کربلائی استاد جامعہ امامیہ تنظیم المکاتب لکھنؤ نے مولانا کرار حسین اظہری،قائم رضا،طاہر حسین،حسن عباس کے والد ِمرحوم الحاج مزمل حسین کربلائی مرحوم ابن الحاج علی اظہر مرحوم کی مجلس چہلم منعقدہ ۲۶؍ستمبر بروز منگل بوقت ۱۰؍ بجے دن امامباڑہ بارگاہ زینب ؑ محلہ پورہ صوفی برئی ٹولہ مبارکپور میں خطاب کے دوران کیا۔
آخر میں مولانا نے حضرت علی اکبر کے مصائب بیان کئے جس کو سن کر سامعیں کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔
اس موقع پر مولانا ابن حسن املوی،مولانا شمشیر علی مختاری،مولانا مظاہر حسین محمدی ،مولانا محمد مہدی حسینی،مولانا صادق حسین،مولانا حسن اختر،مولانا اقتدار حسین،کرار علی کوپاگنج،ماسٹر مختار معصوم،ماسٹر شجاعت سمیت کثیر تعداد میں مومنین نے شرکت کی۔