حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انقلابِ اسلامی کی 45ویں سالگرہ کے موقع پر، آیت اللہ شیخ محمد باقر مقدسی نے اپنے ایک پیغام میں دنیا کے تمام مظلومین بالخصوص ملت اسلامیہ ایران کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک پر ضروری ہے کہ اس انقلاب کی حفاظت کریں، کیونکہ جہاں اسلامی ثقافت اور دینی معارف کی اشاعت کے لئے اس انقلاب کی ضرورت ہے، وہاں دشمنانِ اسلام اس نظام کو کمزور اور مٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بہت سی ایسی چیزیں ہیں، جو اس انقلاب کو نمایاں اور ممتاز کرتی ہیں اور ان برجستہ اور عظیم اہداف کے حصول کے لئے اسے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔
آیت اللہ شیخ مقدسی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ قائدِ انقلاب مرجع تقلید ہیں، اس انقلاب کا سربراہ ایک فقیہ، سب سے زیادہ پڑھا لکھا، متقی، بے غرض اور سب سے زیادہ تجربہ کار شخص ہے اور آج جس شخصیت کے ہاتھ میں اس انقلاب کی قیادت ہے، اس میں نہ دنیا کی ہوس ہے اور نہ ہی جاہ و مقام کی طلب، وہ صرف ایک عادل اور متقی انسان ہیں، ایسا لیڈر دنیا میں ملنا ممکن نہیں ہے۔ قرآن کہتا ہے: «إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاهَ فِیهَا هُدًی وَنُورٌ ۚ یَحْکُمُ بِهَا النَّبِیُّونَ … وَالرَّبَّانِیُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن کِتَابِ اللَّـهِ» (مائده/۴۴) "بے شک ہم نے تورات کو نازل کیا ہے، اس میں ہدایت اور روشنی ہے، انبیاء اس کے ذریعے فیصلہ کریں گے۔ اساتذہ اور مخبر حضرات اس بات سے جو انہوں نے خدا کی کتاب سے حفظ کی ہے۔" (مائدہ:44) ہم نے تورات کو نازل کیا، جبکہ اس میں ہدایت اور روشنی تھی اور انبیاء اور علماء اور دانشمندوں نے اس کتاب پر فیصلہ کیا جو ان کے سپرد تھی، یعنی انبیاء کے بعد علماء اور دانشمندوں نے تورات کی بنیاد پر حکومت کی۔
انہوں نے ولایت فقیہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ نظام ولایت فقیہ سے مراد کتاب الٰہی پر مبنی علماء کی حکمرانی ہے، اس لئے مسئلہ ولایت فقیہ، اسلامی نظام کی اہم خصوصیات میں سے ہے، جو دنیا میں کہیں اور نہیں ہے۔
آیت اللہ شیخ باقر مقدسی نے مزید کہا کہ انقلابِ اسلامی کا ہدف صرف اسلام اور اسلامی طرزِ زندگی بسر کرنا تھا، کیونکہ اس کا ہدف الٰہی تھا، اس لئے انقلاب کے آغاز سے لے کر اب تک اس انقلاب کو بچانے کے لیے ہزاروں لوگوں نے اپنی قیمتی جانوں کی قربانی سے دریغ نہیں کی، جوان، بوڑھے اور حتیٰ ماؤں بہنوں نے بھی اس راہ میں قربانی دی ہے ہوئے۔ کیا یہ ساری قربانیان انقلاب کے ان بلند اہداف کو محفوظ رکھنے کیلئے نہیں تھیں ؟ «فَمَن یُرِدِ اللَّـهُ أَن یَهْدِیَهُ یَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ» (انعام/۱۲۵) "جس کو خدا ہدایت دینا چاہتا ہے، اس کا سینہ ( اسلام کی) قبولیت کے لئے کھلتا ہے"۔
انہوں نے انقلابِ اسلامی میں عوامی کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید کہا کہ انقلاب کو مشروعیت بخشنے کے لئے عوام ہر وقت منظر پر رہے ہیں اور یہ انقلاب اپنے سیاسی مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے عوام کی رائے پر انحصار کرتا ہے۔ «وَأَمْرُهُمْ شُورَیٰ بَیْنَهُمْ» (شوری/۳۸) انقلاب سے پہلے لوگوں سے کوئی مشاورت نہیں ہوتی تھی۔
حوزہ علمیہ قم کے بزرگ استاد نے انقلابِ اسلامی کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ انقلاب کسی ایک گروہ یا جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد سے وجود میں نہیں آیا، بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی موجودگی میں وجود میں آیا ہے، کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ انقلاب انجینئروں، ڈاکٹروں، مزدوروں، کسانوں، ملاؤں، مسلح افواج یا بازاریوں کا ہے، بلکہ یہ انقلاب تمام لوگوں اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی موجودگی سے تشکیل پایا اور یہ ان سب کا مشترکہ انقلاب ہے۔
آیت اللہ مقدسی نے کہا کہ انقلابِ اسلامی اور اسلامی نظام کا بھروسہ عوام پر ہے، یہ انقلاب پارٹی، نوکری، نسل، لہجہ، خاندان، علاقہ اور کسی دوسری چیز کی بات نہیں کرتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ انقلابِ اسلامی استکباری طاقتوں کی مخالفت اور مظلوم کی حمایت کرتاہے۔ قرآن اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیات کو یوں بیان کرتا ہے: «اشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا» (فتح/۲۹) انقلابِ اسلامی تمام مشکلات اور دباؤ کے باوجود دنیا کے مظلوموں، جیسے فلسطین، عراق، لبنان اور شام کی مدد کرتا ہے۔" رُحَمَاءُ بَیْنَهُمْ" کا عملی نمونہ ہے اور دوسری طرف انقلابِ اسلامی مشرق و مغرب کی استعماریت کے مد مقابل کھڑا ہوا اور اسلامی جمہوریہ کی خارجہ پالیسی کو " نہ شرقی نہ غربی جمہوری اسلامی" قرار دیا اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ بہت سے ممالک میں بالواسطہ یا بلاواسطہ مداخلت کر رہا ہے اور ان ممالک کے صدور اور اعلیٰ عہدیداروں کو منتقل کرتا ہے، لیکن ایران میں اسے ایک بھی نمائندہ کو ہٹانے یا مقرر کرنے کا اختیار نہیں ہے، یہ ان مسائل میں سے ایک ہے جس نے مغرب کو اسلامی جمہوریہ ایران کی مخالفت پر کمربستہ کر دیا ہے۔
آیت اللہ باقر مقدسی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں زندہ در گور ہونے والی لڑکیوں کے بارے میں کہتا ہے: «وَإِذَا الْمَوْءُودَهُ سُئِلَتْ بِأَیِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ» (تکویر/۸و۹) اس لڑکی نے ایسا کیا گناہ کیا تھا، کہ اسے مارا گیا ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ مظلوم کو تلاش کرنا ایک قدر ہے اور اس کا مذہب، قومیت اور نسل سے کوئی تعلق نہیں ہے، جہاں سے بھی مظلوم کی آواز سنو اٹھ کھڑے ہو جاؤ اور اب یہ اسلامی جمہوریہ ایران کر رہا ہے، لہٰذا ایران میں ہم دیکھتے ہیں کہ عوام بھی اس خدا پسند کام پر کاربند ہیں اور دنیا میں جہاں بھی کسی پر ظلم ہوتا ہے لوگ مارچ کرتے ہیں اور ظالموں کے خلاف نعرے لگاتے ہیں۔
قرآن کہتا ہے: «لَا یُصِیبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَهٌ فِی سَبِیلِ اللَّـهِ وَلَا یَطَئُونَ مَوْطِئًا یَغِیظُ الْکُفَّارَ وَلَا یَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّیْلًا إِلَّا کُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ» (توبه/۱۲۰) اللہ کی راہ میں انہیں کوئی پیاس، تھکاوٹ اور بھوک نہیں پہنچے گی، کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاتے جو کافروں کے غضب کا باعث ہو اور دشمن کی طرف سے ایک زحم نہیں کھاتے ہیں جب تک کہ اس کی وجہ سے ان کے لیے کوئی نیکی نہ لکھی جائے، لہٰذا 22 بہمن اور یوم قدس کی یہ مارچ سپر پاورز اور اسرائیل کے غصے کا سبب بنتی ہے۔