تحریر: مولانا محمد رضا ایلیا مبارک پوری
حوزہ نیوز ایجنسی | جنت البقیع مدینہ منورہ میں موجود ائمہ معصومینؐ، حضرت فاطمہ زہراؓ، اصحاب پیغمبر اسلام صلعم، تابعین اور مذہبی اکابرین اور اولیاء اللہ کی قبور پر مشتمل قبرستان کو جنت البقیع کہتے ہیں۔اس قبرستان کو دوبار مسمار کیا پہلی بار سن 1220ہجری قمری میں اور دوسری بار سن 1344 ہجری قمری میں۔ جنت البقیع کے انہدام پر دنیا کے تمام ممالک کے شیعہ اور اہل سنت شدید غم و غصہ کا اظہار کیا اور کرتے رہیں گے جب تک مکمل تعمیر نہ ہو جائے۔ ہر سال 8 شوال کو یوم انہدام جنت البقیع کے نام سے مناتے ہیں اور اس کام کی پر زور مذمت کرتے ہوئے سعودیہ عربیہ کی موجود حکومت سے اس قبرستان کی فی الفور تعمیر کا مطالبہ کرتے ہیں۔
جنت البقیع حرم نبوی کے بعد مدینہ کااہم ترین اور افضل ترین مقام ہے۔ بقیع کا قبر ستان سب سے پہلا وہ قبرستان ہے جو رسول اسلام صلعم کے حکم سے جنت البقیع کی بنیاد مسلمانوں کے لیے رکھی گئی۔
جنت البقیع کی اہمیت اور فضیلت میں اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ پیغمبر اسلام نے اس کے بارے میں فرمایا:’’بقیع سے ستر ہزار لوگ محشور ہوں گے کہ جن کے چہرے چودہوں چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے۔
قبرستان بقیع اسلام کی قدیم ترین اور ابتدائی ترین آثار میں سے ہے۔ بقیع اولا د پیغمبر کا مدفن ہے۔ بقیع بعض روایات کے مطابق حضرت فاطمہ زہراؐ کا مدفن ہے۔ بقیع چار آئمہ امام حسنؑ، امام سجادؑ امام باقرؑ اور امام جعفر صا دقؑ کا مدفن کے ساتھ بہت ساری عظیم ہستیوں کا مدفن ہے جس ناموں کو بیان کر نا نا ممکن ہے۔
ایک مورخ علی بن مو سی نے اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ ائمہ اطہار کا روضہ بقیع میں موجود دیگر تمام مقبروں سے بڑا تھا۔ اس سے زیادہ اہم بات ابراہیم رفعت باشا کی ہے کہ جس نے اس روضے کے انہدام سے 19 سال پہلے اس کی تعریف میں کہا تھا کہ جنت البقیع موجود تمام مقبروں سے بڑا مقبرہ ائمہ اطہار کا تھا۔
8شوال سن1344میں سعودیہ حکومت کے چیف جسٹس شیخ عبد اللہ کے حکم سے جنت البقیع کے تمام تاریخ آثار منہدم کر دیئے گئے۔ جنت البقیع کی تعمیر کے لیے حکومت سعود سے تمام مسلمانوں شیعہ اور اہل سنت اپیل کر تے ہیں اور کیونکہ ان کے یہاں نہ فقط اسلامی اصول اور فروعات کے ساتھ متضاد نہیں ہے بلکہ ان کے یہاں بزرگا ن دین اسلام کے قبور کی زیا رت کرنا ایک مستحب عمل بھی ہے اور اسلام میں اس عمل کی ایک لمبی تاریخ ہے۔